نئی دہلی: جماعتِ اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے لداخ میں حالیہ پر تشدد مظاہروں کے دوران قیمتی جانوں کے ضیاع پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔لداخ کو ریاستی درجہ دینے اور آئینی تحفظات کے مطالبات پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے تشدد میں بدل گئے جس کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
میڈیا کے لیے جاری ایک بیان میں پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ جماعتِ اسلامی ہند لداخ سے موصول ہونے والی خبروں سے سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ ہم حکومت اور عوام دونوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مسئلے کے بامقصد حل تک پہنچنے کے لیے تعمیری مذاکرات اور مشترکہ کوششوں کا آغاز کریں ۔اس وقت تشدد اور ٹکراؤ کی صورت حال سے بچنے کی سخت ضرورت ہے ۔لداخ کو ریاستی درجہ، آئین کے چھٹے شیڈول میں شمولیت، قبائلی برادریوں کے تحفظ، روزگار، ثقافت و ماحولیات کے لیے حفاظتی اقدامات جیسے عوام کے مطالبات حقیقی ہیں اور ان پر فوری توجہ دئے جانے کی ضرورت ہے۔سلیم انجینئر نے کہا کہ اگرچہ چھٹے شیڈول میں شمولیت اور ثقافتی و ماحولیاتی تحفظات کا معاملہ طویل عرصے سے زیرِ بحث ہے اور مختلف حکومتیں ان ضروریات کا اعتراف پہلے بھی کر چکی ہیں تاہم ریاستی درجہ کا سوال حالیہ برسوں میں پھر ابھر کر سامنے آیا ہے اور یہ ایک نہایت اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ لداخ کی نازک ماحولیاتی حالت، منفرد قبائلی شناخت اور اس کی عسکری اہمیت کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے کو مزید مؤخر نہیں کیا جانا چاہئے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ لداخ کے عوام کے مطالبات کو نیک نیتی کے ساتھ حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔اسی کے ساتھ ہم لداخ کے عوام سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ جائز مطالبات پیش کرنا ان کا جمہوری حق ہے، لیکن اس جدوجہد کو پُرامن بنائے رکھنا سب کے لیے لازمی ہے۔ تشدد نہ صرف ان کے مقصد کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ ان مطالبات کے ارد گرد جو وسیع اتفاق رائے قائم ہوا ہے، اسے بھی کمزور کر دیتا ہے۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے مزید کہا کہ عوام کی سب سے بڑی تشویش چین کی مبینہ دراندازیوں اور مقامی چرواہوں و قبائلی برادریوں کو نقصان پہنچانے والی بڑی کمپنیوں کو زمین دینے کا معاملہ ہے۔ ان خدشات کو انتہائی سنجیدگی سے دور کرنا ضروری ہے کیونکہ بھارت کی علاقائی سالمیت کا تحفظ اور مقامی روزی روٹی کا بچاؤ کا معاملہ سب سے اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھ کر سخت افسوس ہوتا ہے کہ باشعور شہریوں اور کارکنان کو میڈیا اور بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے ناحق ‘غدار’ یا ‘ملک دشمن’ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے الزامات عوام کے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹا دیتے ہیں، ماحول کو خطرناک طور پر منقسم کرتے ہیں اور ان کے خدشات کو مزید بڑھاتے ہیں۔ لداخ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک بڑے اور پریشان کن قومی رجحان کا حصہ ہے، جہاں اختلاف رائے رکھنے والی آوازوں اور سیاسی مخالفین کو تیزی سے اور آسانی کے ساتھ ملک دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ رویے نہ صرف جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں بلکہ سماجی ڈھانچے کے لیے بھی انتہائی تباہ کن ہیں لہٰذا انہیں سختی کے ساتھ مسترد کرنا ہوگا۔
حکومت کو چاہیے کہ ہمدردی کا مظاہرہ کرے، تمام فریقوں کی باتوں کو سنجیدگی سے سنے اور عوام کے حقیقی مسائل حل کرنے کے لیے مقررہ وقت میں اقدامات کرے۔ لداخ کی ترقی ماحولیاتی قدروں اور عوامی کی امنگوں کے مطابق ہونی چاہیے تاکہ مقامی زندگی، ثقافت اور ماحول محفوظ رہے اور ساتھ ہی ملک کی سرحدیں بھی محفوظ رہیں۔پروفیسر سلیم انجینئر نے لداخ میں کارکن سونم وانگچک کی گرفتاری کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی درجہ اور آئینی تحفظات کے مطالبے پر ہونے والے عوامی احتجاج کے دوران حالیہ پرتشدد واقعات انتہائی تشویش ناک ہیں۔ تاہم پُرامن اختلاف رکھنے والوں اور کارکنان کو نشانہ بنانا کسی طور بھی جائز نہیں۔ ہم حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ سونم وانگچک کو فوراً رہا کیا جائے اور لداخ کے عوام کے ساتھ بامقصد اور تعمیری مکالمہ کیا جائے تاکہ موجودہ بحران کا حل نکل سکے۔