نئی دہلی - پریس ریلیز
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت کی درآمدات پر اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مجموعی ٹیرف کی شرح 50 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ان کے مطابق یہ اقدام غیر ضروری، جانبدارانہ اور نہ صرف بھارتی بلکہ امریکی معیشت اور عالمی تجارتی استحکام کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ بھارت کو روس سے خریداری پر سزا کے طور پر نشانہ بنانا کس منطق کے تحت ہے، جب کہ یورپی یونین سمیت کئی ممالک روس سے تجارت جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ان پر ایسی پابندیاں نہیں لگائی جاتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر خودمختار ملک کو اپنی خارجہ، تجارتی اور اقتصادی پالیسی خود طے کرنے کا حق حاصل ہے، اور اقتصادی دباؤ ڈال کر کسی کو مجبور کرنا خطرناک اور عالمی تعاون کے لیے نقصان دہ ہے۔
امیر جماعت نے واضح کیا کہ 50 فیصد ٹیرف خاص طور پر محنت طلب شعبوں جیسے ٹیکسٹائل، قالین اور خوراک کی برآمدات میں مصروف چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا، جس سے ہزاروں مزدور بے روزگار اور امریکی صارفین مہنگی اور محدود مصنوعات کے سامنے مجبور ہوں گے۔
انہوں نے حکومت ہند پر زور دیا کہ اس بحران سے سبق لے کر خارجہ پالیسی کا ازسرِنو جائزہ لے، کیونکہ سامراجی طاقتیں کبھی کسی خودمختار اور باوقار قوم کی مخلص دوست نہیں رہیں۔ بھارت کو ایک متوازن اور غیرجانبدارانہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے، نہ کہ کسی ایک طاقت کے ساتھ حد سے زیادہ قربت اختیار کرنے کی۔
امیر جماعت نے بھارتی ردِعمل کے لیے تین نکات پیش کیے:
تجارتی تنوع: جاپان، جنوبی کوریا، یورپی یونین، آسٹریلیا، آسیان، برکس اور دیگر علاقائی بلاکس کے ساتھ معاشی تعلقات کو وسعت دی جائے تاکہ بیرونی دباؤ کا مقابلہ کیا جا سکے۔
متبادل معاشی قوتوں کو مضبوط بنانا: برکس جیسے عالمی معاشی اتحادوں میں قائدانہ کردار ادا کیا جائے تاکہ طاقت کی تقسیم میں توازن پیدا ہو اور کسی ملک کو غیر ضروری اثر و رسوخ استعمال کرنے کا موقع نہ ملے۔
داخلی معاشی استحکام: گھریلو صنعت، محنت طلب پیداواری شعبوں اور زراعت کو مضبوط کرنے کے لیے مالیاتی اور پالیسی اقدامات کیے جائیں، بنیادی ڈھانچے اور انسانی وسائل پر سرمایہ کاری بڑھائی جائے اور بڑی معیشتوں پر انحصار کم کیا جائے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ بھارت کو اس چیلنج کو داخلی اصلاحات کا موقع سمجھنا چاہیے، صنعتی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا، کاروبار کے لیے آسانیاں پیدا کرنی ہوں گی، ہنر مندی کے پروگراموں میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور لاجسٹک اخراجات کم کرنے ہوں گے۔ ان کے مطابق ایک مضبوط اور خودکفیل معیشت ہی بیرونی دباؤ کے خلاف سب سے مؤثر دفاع ہے، اور حکومت کو اصولی، خودمختار اور متوازن خارجہ پالیسی اختیار کرنی چاہیے جو نہ صرف معاشی خودمختاری کا تحفظ کرے بلکہ ایک منصفانہ عالمی تجارتی نظام کے قیام میں بھی کردار ادا کرے۔