جینت چودھری کی مسلم دانشوروں سے ملاقات

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-12-2023
جینت چودھری کی مسلم دانشوروں سے ملاقات
جینت چودھری کی مسلم دانشوروں سے ملاقات

 

نیو دہلی : ہمیں سیاست میں اقلیتیوں کی باتیں کرنی چاہیے ،اقلیتوں کے حقوق کا معاملہ اٹھانا چاہیے، اس میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہونی چاہیے-خواہ سیاسی طور پر اس کا کوئی نقصان ہی کیوں نہ نظر آ ئے-راشٹریہ لوک دل کے سربراہ جینت چودھری نے جمعہ کو راجدھانی میں مسلم رہنماؤں اور دانشوران سے ملاقات میں بی جے پی کے خلاف اپنی لڑائی کو نظریاتی قرار دیتے ہوئے اس جدو جہد میں بھی سے شامل ہونے کی اپیل کی۔

پارٹی کے نائب صدر و سینئر صحافی شاہد صدیقی کے ذریعہ بلائی گئی اس میٹنگ میں پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج کے پیش نظر اپوزیشن کے اتحاد انڈیا کو مضبوط کرنے پر بھی زور دیا گیا۔

 اس میٹنگ میں پروفیسر سید عرفان حبیب، جماعت اسلامی کے نائب صدر ملک محتشم خان عمر بیگ، چیئر مین کو آپریٹو بینک، قاسم رسول الیاس، نوید حامد،  موجود تھے

اس تبادلہ خیال کے دوران  کچھ دانشوروں نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد کو مسلمانوں کے مسائل پر بات کرنی چاہئے- جبکہ ایک طبقہ کا خیال تھا کہ حکمت عملی کے پیش نظر اقلیتوں کے بارے میں بات نہ کرے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن اسے خود کو مضبوط کر کے بی جے پی کو شکست دینے پر اپنا دھیان مرکوز کرنا چاہئے- اس نظریہ سے جبینت چودھری نے دوٹوک لہجہ میں کہا کہ ہمیں اقلیتوں کی بات کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہماری لڑائی نظریاتی ہے، ہم صرف اقتدار کیلئے جدو جہد نہیں کر رہے ہیں ، ہم صرف اس لئے مسلمانوں کی بات کرنا نہیں چھوڑ سکتے کہ ہمیں الیکشن جیتنا ہے۔ اگر ہم اقلیتوں کی بات کرتے ہوئے گھبرائین گے تو یہ مناسب نہیں ہوگا، کیونکہ ہم تبدیلی کیلئے کام کر رہے ہیں۔ جینت چودھری نے کہا کہ وہ ملک میں یکساں مواقع کمیٹی تشکیل کے خیال پر کام کر رہے ہیں۔

اس کے لئے و ہ پارلیمنٹ میں بل بھی پیش کریں گے۔ اس کا خاکہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں موجود ہے۔ اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو کمیٹی مختلف علاقوں کا جائزہ لے کر یہ دیکھ سکتی ہے کہ کن برادریوں کیلئے کہاں کس طرح کے مواقع موجود ہیں اور کون سی برادریاں ان سے محروم ہیں۔ آر ایل ڈی سربراہ نے اس طرح کی ملاقاتوں کے سلسلہ پر بھی زور دیا اور کہا کہ ملک میں تبدیلی صرف سیاسی پارٹیاں نہیں لاسکتیں بلکہ جس طرح سے لوگوں کے درمیان دوریاں پیدا کر دی گئی ہیں- اس کیلئے سماجی رہنماؤں کو آگے آکر کام کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں اور دلتوں کے ووٹ بڑے پیمانے پر کاٹے جارہے ہیں، ایسے میں سماجی تنظیموں کا کام ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جو لوگ ووٹ دینے کے اہل ہیں، ان کے نام انتخابی فہرست میں شامل کرائیں اور جن لوگوں کے نام میں کوئی غلطی ہے یا انہیں انتخابی فہرست سے ہٹا دیا گیا، ان کو بھی دوبارہ اس میں شامل کرایا جائے۔متعدد دانشوروں نے کہا کہ پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے ذریعہ ملک میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کو مایوس کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔پارٹی کے نائب صدر و سینئر صحافی شاہد صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں موجودہ ماحول سے مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ہم 1857 کے خونچکاں حالات، تقسیم وطن کے وقت کی کسمپرسی اور بابری مسجد کے انہدام کے وقت ملک میں بڑے پیمانہ پر نفرت اور فسادات کے ماحول سے نکل آئے تو ہم اس سے بھی باہر نکل سکتے ہیں۔ جو لوگ مایوسی پھیلا رہے ہیں وہ قوم و ملک کے حق میں بہتر نہیں کر رہے ہیں۔ اس ملاقات میں ایک ایسا گروپ بنانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جس میں بھی لوگ مل کر کام کریں۔ سماجی تنظیموں پر زور دیا گیا کہ وہ ملک میں قیادت کو فروغ دینے کیلئے اور ملی مسائل کو اٹھانے کیلئے بھی کام کریں۔