خیرآبادکاوہ عِلمی خاندان،جو اب فلمی خاندان بن چکاہے

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 20-01-2022
خیرآبادکاوہ علمی خاندان جس کے چشم وچراغ جاویداختر ہیں
خیرآبادکاوہ علمی خاندان جس کے چشم وچراغ جاویداختر ہیں

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

شاعر،نغمہ نگارواسکرپٹ رائٹر جاویداخترمحتاج تعارف نہیں۔ ان کےاداکار بیٹے فرحان اختراورفلم ڈائرکٹر بیٹی زویااخترکو دنیا جانتی ہے،ان کی موجودہ بیوی شبانہ اعظمی اپنی اداکاری اورسابقہ بیوی ہنی ایرانی اپنی اسکرپٹ رائٹنگ کے لئے شہرت کی حامل ہیں مگر کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ خاندان ماضی میں بھی اپنے علمی کاموں کے لئےجانا جاتا رہاہے۔

نیز اس خاندان کا ہندوستان کی جنگ آزدی میں اہم کردار رہا ہے۔مولانا فضل امام خیرآبادی اورمولانافضل حق خیرآبادی اس خاندان کے مورث اعلیٰ ہیں جن کی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔اسی خاندان میں معروف شاعر ریاض خیرآبادی، مضطرخیرآبادی،نیرخیرآبادی ہوئے اور کئی اہم لوگ پیدا ہوئے۔ جاویداختر کے والد جاں نثاراخترخود ایک اچھے شاعر،نغمہ نگاراور فلم ڈائرکٹروپروڈیوسر تھے۔ جاں نثاراختر کی پہلی بیوی صفیہ اختراچھی نثر نگار تھیں جب کہ جاوید کے ماموں مجاز لکھنوی اردونصاب کا حصہ ہیں۔

مجاہدآزادی مولانافضل حق خیرآبادی

awaz

انڈمان میں مولانافضل حق خیرآبادی کی قبر

مولانا فضل حق خیرآبادی کے والد مولانا فضل امام خیرآبادی دہلی میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ان کا شماراپنے عہدکے مصنفوں اور مدرسوں میں ہوتاتھا جب کہ مولانافضل حق خیرآبادی لکھنو میں چیف جسٹس تھے،بعد میں دہلی آگئے اورآخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ہم نشیںوں میں شامل ہوئے۔

جنگ آزادی ہند 1857ء میں ان کا اہم کردار تھا۔ انھوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ مرتب کرنے میں اہم کردارنبھایا۔انھوں نے اترپردیش کے مختلف اضلاع کے دورے کئے اورعوام وخواص کو انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔

نتیجہ کے طور پر ان کے خلاف مقدمہ چلااورسزائے کالاپانی دی گئی۔ ان کے بیٹے مولاناعبد الحق نے رہائی کے لئے کوششیں کیں اور بہت مشکل سے آزادی کا پروانہ حاصل کیامگر تب تک دیر ہوچکی تھی۔ وہ اسے تب لے کر انڈمان پہنچے جب مولاناکا جنازہ اٹھائےلوگ قبرستان جارہے تھے۔ مولانافضل حق خیر آبادی کا شماربڑے عالموں میں ہوتاتھا۔ساتھ ہی وہ ایک فلسفی، شاعراورمصنف بھی تھے۔

انھوں نے انڈمان میں"الثورۃ الہندیہ" اور " قصائدِ فتنۃ الہند" تصنیف کی تھی۔الہدیۃ السعیدیہ،عربی زبان میں فلسفہ کی اہم کتاب ہے۔

مولانافضل حق خیرآبادی کے تعلق سے ایک خاص بات قابل ذکر ہے کہ وہ اردوفارسی کےمعروف شاعر مرزاغالب کے دوستوں میں شامل تھے اور دیوانِ غالب،انھیں کا مرتب کردہ ہے۔سرسیداحمدخان سے مولانا کے نظریاتی اختلافات تھے،اس کے باوجود سرسید نے اپنی کتاب آثارالصنادید میں ان کے علم وفن اورمقبولیت کی تعریف کی ہے۔ مولانا روحانیت میں یقین رکھتے تھے اور سلسلہ چشتیہ میں شاہ دھومن دہلوی علیہ الرحمہ سے بیعت تھے۔

شاعرمضطرخیرآبادی

awaz

مجاہدآزادی مولانافضل حق خیرآبادی کے پوتے مضطرخیرآبادی،جاویداختر کے دادا تھے۔وہ 1865 میں خیرآباد میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی زندگی خیرآباد، ٹونک، گوالیار، اندور، بھوپال اور رام پور میں گزاری۔ انہیں اعتبار الملک اور افتخار الشعراء کے القاب ملے۔ ان کا انتقال 1927 میں گوالیار میں ہوا اور وہیں دفن ہیں۔

وہ شاعر اور نغمہ نگار جان نثار اختر کے والد تھے۔انھوں نے متعدد کتابیں لکھیں۔ انہوں نے ’کرشمۂ دلبر‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی شائع کیا۔ ان کی چندکتابوں کے نام ہیں،نذرِ خدا (حمدودعاپرمبنی شعری مجموعہ )۔ میلادِ مصطفیٰ(نعتوں کا مجموعہ) بہر تاویل، ایک نظم مرگِ غلط کی فریاد، ایک غزل ۔

شاعرونغمہ نگارجان نثار اختر

awaz

محمدرفیع کے ساتھ جان نثاراختر

جان نثار اختر (18 فروری 1914 - 19 اگست 1976) معروف شاعر تھے، اور ترقی پسند مصنفین کی تحریک کا حصہ تھے۔ انھوں نے بالی ووڈ فلموں کے لیے گیت نگاری بھی کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ جاں نثاراختر کافلمی کیرئیر چار دہائیوں پر محیط تھا جس کے دوران انہوں نے سی رام چندر، او پی نیئر، دتا نائک سمیت متعدد موسیقاروں کے ساتھ کام کیا جن میں این دتا اور خیام بھی شامل تھےاور 151 گانے لکھے۔

ان کی کامیاب فلموں میں اے آر کاردار کی یاسمین (1955)، گرو دت کی سی آئی ڈی (1956) میں (آنکھوں ہی آنکھوں میں۔۔۔)، پریم پربت (1974) (یہ دل اور انکی نگاہوں کے سایے۔۔) اور نوری (1979) میں (آجا ری۔۔) شامل ہیں۔ ان کا آخری گانا، اے دل نادان، کمال امروہوی کی فلم رضیہ سلطان (1983) میں ہے۔

ان کی معروف نظموں میں نذر بتاں، سلاسل، جاوداں، پچھلے پہر، گھر آنگن اور خاک دل شامل ہیں۔ مؤخر الذکرخاک دل ایک شعری مجموعہ ہے جس کے لیے انھیں 1976 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا تھا۔ انھوں نے واحدفلم پروڈیوس کی تھی جوکلاسک میں شامل ہے۔ یہ فلم ہے بہو بیگم (1967)۔  

نثرنگار صفیہ اختر

awaz

بائیں تصویر میں صفیہ اختر۔۔۔دوسری تصویر میں جان نثاراختراپنے بیٹوں جاویداور سلمان اختر کے ساتھ

صفیہ اختر، ترقی پسند شاعر جان نثار اخترکی اہلیہ، مجاز لکھنٰوی کی بہن اور اسکرپٹ رائٹر جاوید اخترکی والدہ تھیں۔وہ ردولی،ضلع بارہ بنکی کی رہنے والی تھیں اور جوانی میں ہی انتقال کرگئی تھیں۔ وہ ایک گھریلو خاتون تھیں، ساتھ ہی ساتھ اچھی نثرنگار بھی تھیں۔ اس حقیقت کا اظہار ان کے خطوط سے ہوتا ہے جو کتابی شکل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ’’حرف آشنا‘‘ اور"زیرِ لب " صفیہ اختر کے خطوط کا مجموعہ ہے۔

اسے خود جاں نثار اختر نے کتابی شکل میں صفیہ اختر کی وفات کے بعد شائع کیا تھا۔ کتاب کا بڑا حصہ صفیہ اختر اور جاں نثار اختر کے درمیان لکھے خطوط پر مشتمل ہے۔ ’’زیر لب‘‘ میں خطوط کی تعداد 222 کے لگھ بھگ ہے۔یہ خطوط 22 دسمبر 1949اور29 دسمبر 1952 کے درمیان لکھے گئے ہیں۔

نغمہ نگار،اسکرپٹ رائٹرجاویداختر

awaz

جاوید اختر (پیدائش: 17 جنوری 1945) ایک شاعر، نغمہ نگار، اسکرین رائٹر اور سابق ممبرپارلیمنٹ ہیں۔ ہندی سنیما میں ان کے کام کے لیے پانچ نیشنل ایوارڈز مل چکے ہیں۔ علاوہ ازیں1999 میں پدم شری اور 2007 میں پدم بھوشن، دو اعلیٰ ترین شہری اعزازات انھیں حاصل ہیں۔ جاوید اختر کو سلیم-جاوید کی جوڑی کی شکل میں پہچان ملی۔انھوں نے1973 کی ’’زنجیر‘‘ سے بطور اسکرین رائٹر کامیابی حاصل کی۔

ان کی دگرفلمیں دیوار، شعلے،ڈان، مجبور، ترشول، کالیا،دوستانہ، شکتی، کرانتی، کالا پتھر، مسٹر انڈیا وغیرہ ہیں۔ بعد میں انہوں نے بطور گیت نگار اپنے کام کے لئے تعریف پائی۔ جن فلموں میں ان کے گانے بے حد مقبول ہوئے ان میں سلسلہ، بارڈر، گاڈ مدر،رفیوجی،لگان،1942اے لواسٹوری، ڈپلیکیٹ،بیٹا،ارجن وغیرہ شامل ہیں۔

جاوید جاوید اخترکو 2013 میں ان کے اردوشعری مجموعہ ’لاوا‘ کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا، جو ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا ادبی اعزاز ہے۔

ان کا ایک اور شعری مجموعہ ’’ترکش‘‘ بھی خوب مشہور ہواہے۔ 2019 میں، انہیں جامعہ ہمدرد (یونیورسٹی) کی طرف سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔

وہ اکثر سیاسی اور سماجی موضوعات پر اظہارخیال کرتے ہیں۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے لئے انتخابی مہم بھی چلا چکے ہیں اورراجیہ سبھا کے نامزدرکن بھی رہے۔  

ڈائرکٹر،رائٹر،اداکارفرحان اختر

awaz

جاوید اختر اورہنی ایرانی کے صاحبزادے فرحان اختر (پیدائش 9 جنوری 1974) ایک فلم اداکار، ہدایت کار، اسکرین رائٹر، پلے بیک گلوکار، پروڈیوسر، اور ٹیلی ویژن ہوسٹ ہیں۔وہ ہندی فلم انڈسٹری کے زیر اثر پلے بڑھے۔ انہوں نے بالی ووڈ میں اپنے کیریئر کا آغاز ’’لمحے‘‘(1991) اور ہمالیہ پترا (1997) میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کیا۔ فرحان اختر نے ’’دل چاہتا ہے‘‘ (2001) سے ہدایت کاری میں قدم رکھا۔فلم نے قومی ایوارڈ بھی جیتا۔

اس کامیابی کے بعد، فلم’’ لکشیا‘‘ (2004) کی ہدایت کاری کی۔ انھوں نے ڈان (2006)کا بھی ڈائرکشن کیا۔اداکار کی حیثیت سے ان کی پہلی فلم آئی’’راک آن!! (2008) جس کے لیے انہوں نے بطور پروڈیوسر ہندی میں بہترین فیچر فلم کا دوسرا نیشنل ایوارڈ جیتا۔ فرحان اختر کو مزید کامیابی اس وقت ملی جب انہوں نے راکیش اوم پرکاش مہرا کی 2013 کی فلم ’’بھاگ ملکھا بھاگ‘‘ میں ملکھا سنگھ کا کردار ادا کیا۔اس کے لئے انہیں بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ انھوں نے دوسری کئی فلموں میں اہم کردارنبھایااور دادحاصل کی۔ 

رائٹر،ڈائرکٹرزویااختر

awaz

جاویداختروہنی ایرانی کی بیٹی زویا اختر (پیدائش: 14 اکتوبر 1972) ایک فلم ڈائریکٹر اور اسکرین رائٹر ہیں۔مصنف اور ہدایت کار بننے سے پہلے میرا نائر، ٹونی گربر اور دیو بینیگل جیسے ہدایت کاروں کواسسٹ کیا۔زویااختر کئی اعزازات حاصل کرچکی ہیں، جن میں 6 فلم فیئر ایوارڈز بھی شامل ہیں۔

انھوں نے لک بائی چانس (2009)، زندگی نہ ملے گی دوبارہ (2011) اور بامبے ٹاکیز (2013) جیسی فلموں کی ہدایت کاری کی ہے۔ انھوں نے ریما کاگتی کے ساتھ مل کر تلاش (2012) لکھا۔ اس کے بعد دل دھڑکنے دو (2015) اور گلی بوائے (2019) کی ہدایت کاری کی۔