جشن ریختہ : گاؤں میں مسلم دوستوں کی اکثریت کے سبب میں بھی والد کو' ابو' کہا کرتا تھا- گلزار

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-12-2025
جشن ریختہ : گاؤں میں مسلم دوستوں کی اکثریت کے سبب میں بھی والد کو' ابو' کہا کرتا تھا- گلزار
جشن ریختہ : گاؤں میں مسلم دوستوں کی اکثریت کے سبب میں بھی والد کو' ابو' کہا کرتا تھا- گلزار

 



منصور الدین فریدی: نئی دہلی

میرے گاؤں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی جبکہ میرےدوست بھی مسلمان تھے, میرے والد کے بھی بہت سےدوست مسلمان تھے، ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا- ایک الگ ہی ماحول تھا - مجھے اپنے دوستوں کا اپنے والد کو ابو کہنا بہت پسند تھا ،یہی وجہ ہے کہ میں بھی اپنے والد کو پاپا جی کے ساتھ ابو کہا کرتا تھا-

ان یادوں کا ذکر ممتاز شاعر و دانشور گلزار نے دسویں جشن ریختہ کے افتتاحی دن ایک خاص پروگرام میں کیا-ایک جذباتی بات چیت کے دوران گلزار نے کہا کہ میں ہندی اٹک اٹک کر پڑھتا ہوں لیکن اردو انتہائی روانی کے ساتھ پڑھتاہوں کیونکہ میری تعلیم اردو میڈیم سے ہوئی تھی

گلزار نے کہا کہ اگر ماں کی بات کرتے ہیں تو میں نے اپنی ماں کو بہت کم عمر میں کھو دیا تھا ،اس زمانے میں فوٹو کا چلن بھی نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ مجھے اپنی ماں کا چہرہ بھی یاد نہیں ، جب میں آئینے میں خود کو دیکھتا ہوں تو اپنے چہرے میں اس ماں کا عکس تلاش کرتا ہوں 

دبلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ جشن ریختہ ہندوستانیت کا تہوار ہے یہ اردو زبان سے محبت کرنے والوں کا جشن ہے- انہوں نے کہا کہ ریختہ نے ملک کی راجدھانی دلی کو اردو ادب کا مرکز بنا دیا ہے،انہوں نے کہا کہ گلزار صاحب اور جاوید اختر صاحب کی امد سے ایسالگتا ہے گویا چاند زمین پر اتر آئے ہیں

لیفٹیننٹ گورنر نے مزید کہا کہ اردو کو فروغ دیں اردو جیسی زماں کوئی نہیں،  اس زبان کو زندہ رہنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ درد دل بیاں کرنے کا سب سے خوبصورت ذریعہ ہے- انہوں نے کہا کہ اردو دستک نہیں دیتی سیدھے دل میں اتر جاتی ہے یہی اس زبان کی سب سے بڑی طاقت اور خوبصورتی ہے- ہم سب کو اسے زندگی کا حصہ بنانا چاہیے کیونکہ یہ زبان ایک تہذیب ہے ایک طرز زندگی ہے-

ملک کی راجدھانی دلی کے بانسرہ پارک میں دسویں جشن رفتہ کا افتتاح کرتے ہوئے ر یختہ فاؤنڈیشن کے بانی سنجیو سراف اور ڈائریکٹری ہما خلیل لیں خوشی ظاہر کی کہ پچھلے دس سال میں ریختہ نے ایک جشن اور  ایک تہوار  کی شکل اختیار کر لی ہے - سنجیو سراف نے کہا کہ رفتہ کے پرچم تلے اب تک 31 لاکھ سے زیادہ کتابیں ای بک کی شکل لے چکی ہیں جبکہ اردو کے ساتھ اب ریختہ نے ملک کی مختلف زبانوں میں کام شروع کر دیا ہے- اب راجستھانی اور گجراتی کے بعد پنجابی میں بھی ہم نے اپنا کام شروع کر دیا ہے

ہما خلیل نے کہا کہ اردو زبان کو میراث نہیں کہنا چاہیے بلکہ ہم اسے اپنا مستقبل مانتے ہیں, اپ یقین کریے عزت زبان کا مستقبل بہت روشن ہے- یہ زبان ایک تہذیب ہے جسے ہم سال کے 365 دنوں میں جیتے ہیں- انہوں نے جشن ریختہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ابتدائی اٹھ سال تک ہم نے اس کو اردو کے دیوانوں کے لیے مفت رکھا تھا مگر پچھلے دو سال سے ہم نے اس میں ٹکٹ لگائے لیکن اس کے باوجود ہمیں بہت کامیابی ملی اور یہ چیز ریختہ فاؤنڈیشن کے لیے بھی بہت فائدے مند رہی کیونکہ ہم اس امدنی سے مزید اگے کا سفر خود مختاری کے ساتھ کر سکتے ہیں - دسویں جشن ریختہ کے پہلے دن  میوزیکل نائٹ میں سکھوندر نے اپناجلوہ دکھایا

دنیا کی سب سے بڑی عالمی اردوتحریک

ایک طویل سفر

دراصل ریختہ فاونڈیشن کے پرچم تلے اردو شاعری کو یکجا کرنے کی پہل ،ایک تحریک بنی اور اب ایک دنیا، ساتھ ہی  اس دنیا کا سب سے بڑا تہوار بنا جشن ریختہ، جب ویب کی دنیا ، حقیقی طور پر زمین پر اتر آتی ہے، جو اردو کے لیے عید یا عید چراغاں سے کم نہیں  کیونکہ اس موقع پر ایک چھت کے نیچے اردو کے دیو بھی ہوتے ہیں۔اس دوران ریختہ فاونڈیشن نے جن بلندیوں کو چھوا،وہ اب ایک تاریخ ہے،جس کے مختلف ابواب ہیں،مختلف ادوار ہیں اور ہزاروں بلکہ لاکھوں گواہ،جنہوں نے ریختہ کے ظہور سے پرواز تک کے کا سفر دیکھا ۔ دراصل خود سنجیو صراف نے نہیں سوچا ہوگا کہ شاعری کے نام پر جس ویب سائٹ کا آغاز کررہے ہیں۔اس کا دائرہ ایسا وسیع ہوگا۔

قابل ستائش بات یہ ہے کہ ریختہ نے اردو کی فروغ کے لیے ہر اس راہ پر سفر شروع کیا جسے نئے دور کی ٹکنالوجی نے ہموار کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ریختہ گھر گھر نہیں بلکہ ہاتھوں ہاتھ پہنچا ۔ کیونکہ ریختہ نے موبائل کی اہمیت کو سمجھجا  اور ریختہ کے ایپ لانچ کئے ۔ ریختہ اپلیکیشن  اور ریختہ ایپ اس کا حصہ بنے۔جو عاشقان اردو کے لیے ایک  بڑا  تحفہ ہے۔اسی سفر  کی ایک اہم  کڑی ریختہ پبلی کیشنز بھی  ہے ۔

بہرحال  جشن ریختہ نے سونے پہ سہاگہ  کا کام کیا ہے ۔یہ اردو سے عشق کرنے والوں کے لیے سب سے بڑا اور پرکشش تحفہ رہا ۔نام جشن ہے لیکن ایک میلہ کہیں ایک انجمن۔ اس کو اب ایک جنون کے طور پر جانا جاتا ہے

جشنِ ریختہ 2025 میں کیا دیکھنے کو ملے گا؟

دسویں ایڈیشن میں اردو کی جذباتی اور شعری لطافت کو اجاگر کرنے والی متعدد خصوصی محفلیں اور سیشن شامل ہیں جیسے:

مہکتی خوشبو کا سفر, گلزار کے ساتھ: محبت، جدائی اور زندگی کے شعری فلسفے پر گفتگو (گلزار اور دیویا دت کے ساتھ)۔

رنگِ موسیقی , سکھ وِندر سنگھ کا پاور پیک کنسرٹ

ساز اور سما , سلیم–سلیمان کی دلکش موسیقی

دل ابھی بھرا نہیں, ساحر لدھیانوی کو خراجِ عقیدت (جاوید اختر، شنکر مہادیون اور پرتِبھا سنگھ باگھیل کے ہمراہ)۔

The Orchestral Qawwali Project , رُشِل رنجن اور عابی سمپا کے عالمی شہرت یافتہ پروجیکٹ کی بھارت میں پہلی پیشکش

رنگ اور نور , ہما خلیل کا اردو شاعری اور سنیما پر مبنی میوزیکل ڈراما

مشاعرۂ ریختہ اور روحِ مجروح , دنیا بھر کے ممتاز شعراء و نغمہ نگاروں کی شرکت

اس کے علاوہ ایوانِ ذائقہ میں لذیذ پکوان، ریختہ بک بازار میں نایاب و کلاسیکی کتابیں، اور ریختہ بازار میں دستکاری کے اسٹال بھی موجود ہوں گے۔

ریختہ پویلین میں اردو سیکھنے کے جدید ٹولز، ڈیجیٹل وسائل اور انٹرایکٹو سرگرمیوں کے ذریعے زبان سے قربت کا موقع فراہم کیا جائے گا

اس کے ساتھ ہر شام لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو: بانسیرا اور دریائے یمنا کے کنارے کو روشنی، آواز اور شاعری کے حسین امتزاج میں بدل دے گا۔