جامعہ ملیہ - یہ ادارہ تعلیم کے ساتھ طلبہ کی کردار سازی کر زندگیوں اور ملک کا مستقبل سنوارنے کا کام کررہا ہے - ایل جی

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 04-11-2025
  جامعہ ملیہ - یہ ادارہ تعلیم کے ساتھ طلبہ کی کردار سازی کر زندگیوں اور ملک کا مستقبل سنوارنے کا کام کررہا ہے - ایل جی
جامعہ ملیہ - یہ ادارہ تعلیم کے ساتھ طلبہ کی کردار سازی کر زندگیوں اور ملک کا مستقبل سنوارنے کا کام کررہا ہے - ایل جی

 



 نئی دہلی: لیفٹننٹ گورنر دہلی کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی این سی سی وِنگ کی جانب سے سلامی پیش کی گئی، جس کے ساتھ ہی جامعہ کے ایک سو پانچویں یومِ تاسیس کی اختتامی تقریب کا آغاز ہوا۔ یہ تقریب انصاری آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ جامعہ اسکول کی ٹیم نے گورنر کے استقبال میں جامعہ کا ترانہ نہایت خوبصورت اور مترنم انداز میں پیش کیا۔

اس کے بعد پروفیسر آصف (شیخ الجامعہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ) اور پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی (مسجل، جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے عزت مآب شری سکسینہ کا پُرتپاک استقبال کیا۔

لیفٹننٹ گورنر نے اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے 105ویں یومِ تاسیس کے اس تاریخی اور خاص موقع پر یہاں آ کر بے حد خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خوشی اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ وہ ان طلبہ کے درمیان ہیں جن کے کندھوں پر اس عظیم ملک کو دنیا کا سرتاج بنانے کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ “ایک سو پانچ سال کا یہ سفر آسان نہیں تھا، لیکن ہمارے بزرگوں نے اپنی محنت، قربانیوں اور وژن سے اس ادارے کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا۔ سچ کہا گیا ہے — ڈھونڈھو گے تو کئی راستے ملیں گے، منزلوں کی فطرت ہے کہ وہ خود چل کر نہیں آتیں۔”

گورنر نے مزید کہا کہ “مجھے اس بات پر فخر ہے کہ جس جامعہ میں آج میں موجود ہوں، اس کا قیام بابائے قوم مہاتما گاندھی اور گرودیو رابندرناتھ ٹیگور کے اس خواب کی تعبیر ہے، جس میں ایک ایسے تعلیمی ادارے کا تصور پیش کیا گیا تھا جو تمام طبقات کے طلبہ کو ترقی پسند تعلیم اور قوم پرست نظریہ فراہم کرے۔ اُس وقت ملک کو ایسے اداروں کی ضرورت تھی جہاں تعلیم کے ساتھ آزادی کی جدوجہد کا پیغام بھی عام کیا جا سکے۔”انہوں نے کہا کہ “جامعہ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی کردار سازی، روشن مستقبل اور ملک کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ آج یہ ادارہ ایک مضبوط درخت بن چکا ہے جس کی شاخیں ہر میدان میں علم و قابلیت کے پھول کھلا رہی ہیں۔”گورنر نے فخر سے بتایا کہ “جامعہ ملیہ اسلامیہ آج ملک کی چوتھی سب سے اعلیٰ درجہ کی یونیورسٹی ہے، اور یہ دوسرے تعلیمی اداروں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہاں کے طلبہ ملک کے ہر گوشے سے آتے ہیں اور وہ ہندوستان کے مستقبل کی تعمیر میں اپنی بہترین صلاحیتیں لگا رہے ہیں۔”

خواتین و حضرات اس جامعہ سے بڑے ہی معزز لوگوں کا نام جڑا ہوا ہے جن میں سے ایک نام مولانا ابو الکلام آزاد صاحب کا بھی ہے۔ یہ وہ نام ہے جس نے ملک کو آئی آئی ٹی آئی آئی ایم یوجی سی جیسی باوقار ادارے دیے۔ یہ بتاتا ہے کہ وہ کتنے دور اندیش تھے جب بھی ان کا ذکر ہوتا ہے تو ہم دلی کی جامع مسجد پر دیا ان کا وہ خطبہ یاد آتا ہے جو انہوں نے تئیس اکتوبر انیس سو سینتالیس کو دیا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ستارے ٹوٹ گئے تو کیا ہوا سورج کو چمک رہا ہے۔ اس سے کرن مانگ لو اور ان اندھیری رابوں میں بچھا دوجہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے۔ میں نے ان کی باتوں کو یہاں اس لیے دہرایا ہے کہ آپ کو اس تعلیم کی روشنی سے اندھیرے کو دور کرنا ہے ۔ اور یہی پیغام گوشے گوشے میں پھیلانا ہے۔

خواتین و حضرات ! مجھے آج یہاں پر یہ کہتے ہوئے کوئی گریز نہیں ہے کہ یہاں سے تعلیم یافتہ طلبہ آج مختلف اداروں میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ گزشتہ برسوں میں یہاں کے طلبہ کئی نیشنل اور انٹرنیشنل اسکالر شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہاں کی کوچنگ سے کئی طلبہ سول سروس جیسے باوقار امتحانات کو پاس کر کے آئی اے ایس آئی پی ایس بن کر آج ملک کی ترقی اور خوش حالی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس امتیاز کو حاصل کرنا جامعہ اور یہاں کے طلبہ کے لیے بڑے ہی فخر کی بات ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جامعہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ملک کے مستقبل کی تعمیر میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کررہی ہے۔ جامعہ کو اس مقام پر لانے میں جتنی مشقت یہاں کے تدریسی عملے نے کی ہے اتنی ہی آپ طلبہ کی بھی ہے۔ جامعہ بماری ثقافت اور روایات کا نام ہے۔ آج پورے ملک میں اس کا نام پوری احترام اور وقار کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ اب جامعہ ایک قومی یونیورسٹی نہ رہ کر ایک گلوبل کالج بب بن چکی ہے۔ لیکن جامعہ کا سفر یہاں تک محدود نہیں ہے ابھی کافی کچھ اور کرنا باقی ہے۔ اس موقع پر مجھے حفیظ بنارسی کا و ایک شعر یاد آتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا

چلے چلیں کہ چلنا بی دلیل کامرانی ہے۔

جو تھک کربیٹھ جاتے ہیں وہ منزل پا نہیں سکتے

 دوستو تعلیم حاصل کرنا اور تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہونا دو الگ بات ہے۔ اس لیے میرا آپ سے مطالبہ ہے کہ آپ صرف خود بی تعلیم یافته بوکر نہ رہ جائیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کے زیور سے آراستہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کیوں کہ تعلیم حاصل کرنا حکم خداوندی ہے۔ علم کی بی روشنی سے ہم معرفت حاصل کر سکتے ہیں۔ اور عارف بنتے ہیں۔ اس لیے آپ کو اپنے علم کی روشنی نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی قائم رکھنا ہے۔ یہی ہمارا اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ آپ اپنی تعلیم کو تبھی مفید بنا سکتے ہیں جب آپ خود کو سماج کے لیے مفید بنائیں گے۔ آپ کی تعلیم تبھی مفید ہوگی جب آپ اپنے اساتذہ کا احترام کریں اور ان سے سیکھیں گے۔ اس موقع پربرج نارائن چکبست کا وہ شعر یاد آتا ہے۔ ۔ ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا۔ وہی شاگرد ہے جو خدمت استاد کی کرتے ہیں۔
خواتین و حضر ات جیسے کہ آپ سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ ہمارے
 وزیر اعظم شری نریندر مودی جی جو ایک سیاست دا ن سے بھی کہیں زیادہ عظیم تر شخص ہیں۔ ان کی قیادت میں کیندر سرکار دیش میں ورلڈ کلاس ایجوکیشنل انفرا اسٹرکچر ڈولپ کرنے کی سمت میں تیزی سے کام کرربی ہے۔ دیش بھر کے انیک اداروں نے وزیر اعظم کی وژن کے مطابق پچھلے سالوں میں بے مثال ترقی حاصل کی ہے۔ لیکن ہمارے اداروں اور یونیورسٹیز کا سفر یہاں تک ہی محدود نہیں ہے ه ابھی کافی کچھ کرنا باقی ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ
 
علم کی حد ہے کہاں کوئی بتا سکتا نہیں۔
جیسے دریا کا کنارا کوئی پاسکتا نہیں
خواتین و حضرات میں یہاں پہلے بھی آچکا ہوں اور مجھے ہر مرتبہ یہاں پہلے سے کہیں زیادہ محبت ملی ہے۔ اس لیے میں آپ کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں آپ کا مشکور ہوں کہ مجھے اس تاریخی موقع پر اپنے درمیان بلایا اور میرا احترام کیا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آنے والے وقت میں اور موجودہ خوش حال جامعہ کی رہنمائی میں یہ جامعہ نئی بلندیوں کو چھوئے گی۔ آخر میں میں طالب علم اور اساتذہ کو ان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی طرف سے بہترین خواہشات کا پیش کرتا ہوں اور اپنی باتوں کو چند لفظوں میں ختم کرتا ہوں۔ ہمیں وہ علم کے روشن چراغ ہیں جن کو بوا بجھاتی نہیں سلام کرتی ہے۔
آج ہمارے سامنے ہدف یہ ہے کہ بیس سو سینتالیس تک ملک کو وکست
بھارت بنانے کے لیے اپنا اہم کردار ادا کریں۔ اور اس ارادے سے آگے بڑھیں
پروفیسر مظهر آصف شیخ الجامعہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سفر طویل اور غیر معمولی ربا ہے۔ انتہائی سادگی سے اس کی شروعات استادوں کے مدرسے کی صورت میں چھ سے سات طالب علموں اور اساتذہ کے ساتھ ہوئی تھیجو اب آٹھ سو سے زیادہ فیکلٹی اراکین اور چوبیس ہزار طلبہ کے ساتھ ایک بڑی اور عظیم الشان یونیورسٹی بن بوچکی ہے۔ این آئی آر ایف رینکنگ میں چوتھا مقام حاصل کرنا اور موقر ٹائمز بائر ایجوکیشن گلوبل میں سب سے بہترین مرکزی یونیورسٹی قرار دیا جانا اس کی غیر معمولی ترقی کا ثبوت ہے۔پروفیسر آصف نے مزید کہا کہ ہمارا مقصد اس وراثت میں توسیع کرکے اضافہ کرنا ہے اور میڈیکل کالج اور اسپتال کے قیام کے لیے پرامید ہیں جس سے جامعہ میں پیش کیے جانے والے کورسس کی وسیع رینج مکمل ہوجائے گی۔ اپنے طلبہ کے لیے اضافی باسئل قائم کرنے کا بھی ہمارا منصوبہ ہے اس کے ساتھ ہی ہم طلبہ کے لیے زیادہ محفوظ کیمپس بنانے کی سمت کام کر رہے ہیں۔ مین روڈ کے قریب ایک انڈر پاس بھی ہمارے نگاہ میں ہے تاکہ ٹریفک کی نقل و حرکت سہل ہو اور رسائی مزید بہتر ہو۔پروفیسر آصف نے مزید کہا کہ اس سال جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تعلیمی میلہ کی قابل ذکر کامیابی، فیکلٹی اراکین کی اور لائبریری کی عطا کردہ بیس ہزار سے زیادہ کتابوں کی تقسیم تھی تاکہ طلبہ میں پڑھنے کی عادت کو تخم ریزی کی جاسکے۔ جامعہ میں طالب علموں کو ہم تعلیم اور تربیت دونوں ہی پڑھاتے اور بتاتے ہیں کیوں کہ جامعہ کی روایت اور بندوستانی تہذیب و روایت کے پرچم کے علم بردار یہی ہیں۔
 
 یوم تاسیس کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر مظہر آصف نے کہا کہ یہ پروگرام یونیورسٹی کے لیے انتہائی شان دار ربا بر تہذیبی و ثقافتی شام میں طلبہ کی فعال شمولیت کافی حوصلہ افزا ربی ایسا احساس ہوا کہ برسوں میں ایسا جشن اور تہوار نہیں دیکھا۔ کیمپس موسیقی پکوان کے ساتھ زندہ ہوا تھا اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ این ای پی کے نفاذ سے لے کر ذہنی صحت اور خوش حالی تک کے مختلف موضوعات پر با معنی مباحثے منعقد ہوئے۔
پروفیسر آصف نے کہا کہ این ای پی میں مذکور تعلیم کی یہی فکر ہے کہ جس میں کیمپس کا بر تجربه آموزش کو بہتر کرتا ہے اور طالب علم کو بہتر اور ہمہ جہت فرد بناتا ہے۔ تعلیمی میلہ جامعہ کی منفرد تہذیب اور تربیت کو ہمارے طلبہ میں منتقل کرنے کا نام تھا ایسی خصوصیات کو منتقل کرنے کا جو انہیں حقیقی معنوں میں اعلی و ارفع بنادیں۔
پروفیسر محمد مهتاب عالم رضوی ، مسجل جامعہ ملیہ اسلامیہ نے آج اختتام پذیر تعلیمی میله میں بڑے پیمانے پر شرکت اور اس کی کامیابی کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چھ برسوں میں ہم نے تعلیمی افضلیت تہذیبی بوقلمونی اور سماجی بیداری کے محاذ پر غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ مختلف ڈپارٹمنٹ، سینٹرز اور فیکلٹی نے اس تقریب کو کامیاب بنانے میں کافی تعاون دیا ہے۔ تعلیمی ورکشاپ خطبات نمائش اور مذاکراتی سیشن جنہیں پورے ہفتے کے دوران منعقد کیا تھا۔ ان تعلیمی سرگرمیوں نے ہماری دانشورانہ ماحول کو متمول کیا ہے اور اور علم کی ایجاد اور اس کے پھیلاؤ میں ہمارے عہد کو مستحکم کیا ہے۔
پروفیسر رضوی نے کہا کہ تعلیمی میلہ صرف ایک پروگرام نہیں ہے بلکہ سوسائٹی کی مائیکروکوسم ہے جو زندگی، تعلیم، تہذیب ، سماج اور انسانیت کے ہر پہلو کی نمائندگی کرتا ہے۔ پکوان اور دست کاری کی مصنوعات سے لے کر کتابوں اور کپڑوں کی سیکڑوں دکانوں تک کیمپس ایک فعال جان دار ماحول میں تبدیل ہوگیا تھا اور جامعہ کے فلسفہ کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا یعنی تعلیم سے تعمیر تک پروفیسر رضوی نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طویل اور شان دار تاریخ میں اس سال کا تعلیمی میلہ جتنے بھی تعلیمی میلے اب تک منعقد ہوئے تھے ان میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے"۔
 پروفیسر رضوی نے تمام متنظمہ کمیٹیوں خاص طور سے ڈین اسٹوڈینٹس ویلفیئر پروفیسر نیلو فر افض اور ان کی ٹیم فیکلٹی اراکین اور طلبہ پروکٹوریل ٹیم، صفائی کرمچاریوں، سیکوریٹی گارڈ اور میڈیا ٹیم کو ان کی مطابقت محنت شاقہ اور باقاعدہ اشتراک کو سراہا اور ان تمام لوگوں کا شکریہ اد اکیا۔
اس موقع پر عزت مآب لیفٹنٹ گورنر دبلی شری ونے کمار سکسینہ نے پروفیسر مهتاب عالم رضوی اور پروفیسر ایچ ای تنظمی بطور مدیران اور پروفیسر مظہر آصف بطور سرپرست کے ساتھ مل کر جامعہ جرنل آف پیس اسٹڈیز ویسٹ ایشیا سینٹر جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اور ننیسل منڈیلا سینٹر جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ایک دو لسانی جرنل کوکا اجرا کیا۔
اس سال کے تعلیمی میلے میں ممتازمابرین، بیوکرویٹس ، حج پالیسی ساز پبلک انٹلیکچوئل ماہرین تعلیم اور مفکرین نے ایک فعال اسٹیج پر ساتھ آئے۔ پروگرام میں تعلیمی تہذیبی اور کھل کود کی سرگرمیاں بھی ہوئی جس سے جامعہ کمیونیٹی کی فعالیت اور تنوع بھی آشکار ہوا۔چه روزه تقریب کے اختتام کے موقع پر ہزاروں طلبہ اور فیکلٹی ارکین نے عزت مآب لفٹنٹ گورنر کے سامنے جامعہ کے پرچم کو واپس اتارنے کی تقریب میں شامل ہوئے۔ اپنے شاداں و فرحان روح اور کیمپس میں نئی امنگ اور توانائی سے بھرنے کی وجہ سے یہ تعلیمی میله برسہا برس یاد رکھا جائے گا۔