جامعہ ملیہ ۔ نصاب میں مزید ہندوستانی زبانوں کو شامل کرنے کے لیے مزید کوششیں درکار ہیں۔ وی سی

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 25-11-2025
جامعہ ملیہ ۔  نصاب میں مزید ہندوستانی زبانوں کو شامل کرنے کے لیے مزید کوششیں درکار ہیں۔ وی سی
جامعہ ملیہ ۔ نصاب میں مزید ہندوستانی زبانوں کو شامل کرنے کے لیے مزید کوششیں درکار ہیں۔ وی سی

 



نئی دہلی :شعبہ فارسی،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے دارا شکوہ رسرچ فاؤنڈیشن اور قومی کونسل برائے فروغ سندھی زبان کے اشتراک سے مورخہ انیس اور بیس نومبر دوہزار پچیس کو ’فارسی اور سندھی کے سماجی و لسانی رشتے‘کے موضوع پر دوروزہ بین الاقوامی سمینار منعقد کیا۔سمینار کا افتتاحی اجلاس ایف ٹی کے۔ سی آئی ٹی کانفرنس ہال میں منعقد ہوا جس کی صدارت عزت مآب شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر مظہر آصف نے کی۔محترمہ میناکشی لیکھی،سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ و تہذیبی وثقافتی امور،حکومت ہند بطور مہمان خصوصی اور ایران کلچرل ہاؤس نئی دہلی میں کلچرل کونسلر ڈاکٹر فریدالدین فرید عصر بطور مہمان اعزازی شریک ہوئے۔پروفیسر روی پرکاش ٹیک چندانی صدر ڈپارٹمنٹ آف انڈین النگویجیز ااینڈ لٹریری اسٹڈیز،دہلی یونیورسٹی نے سمینار کا کلیدی خطبہ دیا۔

پروفیسر مظہر آصف نے فارسی اور سندھی کے درمیان ربط اور تعلق پر اظہار خیال کرتے ہوئے یونیورسٹی نصاب میں مزید ہندوستانی زبانوں کو شامل کرنے کے تئیں اپنے عہد کو بتایا۔انہوں نے کہاکہ اس ضمن میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے نیز مزید کوششیں درکار ہیں۔فارسی اور سندھی زبانوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے محترمہ میناکشی لیکھی نے علم کو مکمل حد تک حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔’میں نے بھی فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی ہے۔فرد اپنی شخصیت اور کردار کو نکھارنے کے لیے علم حاصل کرتاہے نہ اس کی نمائش کے لیے۔

کلیدی خطبے میں پروفیسر روی ٹیک چندانی نے سندھی زبان کے جغرافیہ،خطے میں بولی جانے والی زبان،اس کی تعمیرات اور صوفی روایات کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ساتھ ہی سندھی رسم خط اور انگریزی نوآبادیاتی قوتوں کی نازک سیاسی حرکیات کی وضاحت کی۔ ڈاکٹر فریدالدین فرید عصر نے فارسی اور سندھی زبانوں کی اہمیت پر زوردیا اور کہاکہ سندھ کی سرحد ایران سے ملتی ہے جس نے دونوں خطوں میں دیر پا اور گہرے مراسم کو فروغ دیاہے۔

پروفیسر اقتدار محمد خان، ڈین،فیکلٹی آف ہیو منی ٹیز اینڈ لنگویجیز نے یونیورسٹی کے ایک بانی رکن اور اس کی گورننگ باڈی کے حیاتی رکن مولانا عبید اللہ سندھی کو یاد کرتے ہوئے جامعہ اور سندھ کے درمیان تعلق کو اجاگرکیا۔انہوں نے مزید بتایاکہ ان کے اعزاز میں جامعہ میں ایک دارالاقامہ کا نام بھی ان کے نام پر رکھا گیاہے۔

مہمانان کی خدمت میں پھول، شال اور یادداشتیں بھی پیش کی گئیں۔شعبہ فارسی کے صدر اور سمینار کے ڈائریکٹر پروفیسر سید کلیم اصغرنے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ سمینار کے کنوینر ڈاکٹر محسن علی،یونیورسٹی کی مختلف فیکلٹیوں کے ڈینز،صدور شعبہ جات، مختلف شعبہ ہائے علم کے پروفیسر،فیکلٹی اراکین اور جے این یو، دہلی یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ بڑی تعداد میں پروگرام میں موجود تھے۔

دوسرے دن مورخہ بیس نومبر دوہزار پچیس کو ڈاکٹر پشکر مشرا الوداعی پروگرام کے مہمان خصوصی تھے۔اپنی تقریر میں انہوں نے سنسکرت کے اسکالروں پانینی،بھر ت ہری نیز ایویستا اور سنسکرت روایات کے درمیان متاثر کن رشتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فارسی اور سنسکرت کے درمیان رشتے پر زور دیا۔ انہوں نے زبان کی ابتدائی تشکیل کی چار شکلوں کے متعلق جواسپیچ کی بصری سے لے کر اظہار کی سطح تک محیط ہیں بتایا۔مزیدبرآں انہوں نے عالمی علوم کی افزائش کے لیے ہندوستانی علوم نظام کی اہمیت پر زور دیا۔ڈاکٹر مشرا نے مختلف دائرہ کاروں میں ہندبرصغیر کو سینٹر آف پروڈکشن کے طورپر اس کی اہمیت بتائی۔

پروگرام کے مہمان اعزازی پروفیسر روی کانت مشرا نے سندھ خطے کی جغرافیائی، تہذیبی وثقافتی اور لسانی خصوصیات کی شناخت کرتے ہوئے قرون وسطی کے ہندوستان میں فارسی شناخت اور ثقافت پرزوردیتے ہوئے اس کی اہمیت اجاگر کی۔انہوں نے مقامی زبانوں کی اہمیت پربھی زوردیا یعنی وہ زبانیں جنہیں برج اور اودھ کی عوام بولتی تھی۔مزید برآں انہوں نے قرون وسطی میں ’ہندوستانی فارسی‘کے عروج پر بھی بات کی۔ان کی تقریر علاقائی اور مقامی تہذیب کے ارتقا کے تاریخی ظہور پر مرکوز تھی۔

پروفیسر انور خیری نے فارسی اورسندھی میں مختلف الفاظ و اصطلاحات کے درمیان مماثلت کو اجاگر کیا۔پروفیسر اقتدار محمد خان نے تجارت،کاروبار اور دوسرے تعلقات و مراسم پرمرکوز رہتے ہوئے مختلف راستوں سے اسلام کی آمد پر بھی توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہندوستانی مسلمان عربوں سے صرف مذہب کی وجہ سے مربوط ہیں نہ کہ تہذیب و تمدن کے وسیلے سے۔حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان تہذیبی وثقافتی لحاظ سے ہندوستانی ہیں۔ڈاکٹر محسن علی نے کانفرنس کے حوالے سے اختتامی گفتگو کی اور فارسی و سندھی میں سماجی و لسانی رابطوں سے متعلق موضوعات پر ز ور دیا۔انہوں نے کانفرنس میں علمی تعاون پیش کرنے کے لیے تمام شرکا کا شکریہ بھی ادا کیا۔

پروفیسر کلیم اصغر نے کانفرنس میں شریک مہمانان اور مندوبین کاپرتپاک خیر مقدم کیااور شرکت کے لیے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ انہوں نے اختتامی اجلاس میں شریک تمام شرکا کے لیے بہترین شعر بھی پڑھا۔انہوں نے شرکا،حاضرین اور رضاکاروں کا ان کی شرکت اور کوششوں کے لیے شکریہ ادا کیا۔