جامعہ ملیہ اسلامیہ:پروفیسر مشیر الحسن کی وراثت اور خدمات یادگاری خطبہ

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 13-08-2025
جامعہ ملیہ اسلامیہ:پروفیسر مشیر الحسن کی وراثت اور خدمات یادگاری خطبہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ:پروفیسر مشیر الحسن کی وراثت اور خدمات یادگاری خطبہ

 



نئی دہلی : شعبہ تاریخ وثقافت،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ممتاز مورخ، سرکردہ ماہر تعلیم اور سابق شیخ الجامعہ پروفیسر مشیر الحسن کی یاد میں مورخہ گیارہ اگست دوہزار پچیس کو پانچواں مشیر الحسن یادگاری خطبہ منعقد کیا۔ یہ لیکچر سیریز پروفیسر مشیرا لحسن کو جدید ہندوستانی تاریخ کے ایک اہم اسکالر کے طورپر جنھوں نے فرقہ پرستی، قومیت پرستی اور مسلم آئیڈینٹی کے موضوعات پرغیر معمولی کام کیاہے ان کی خدمات کو خراج پیش کرنے کی کوشش ہے۔ پروفیسر حسن کے عہد وائس چانسلری میں جامعہ نے ایک پھولتے پھلتے علمی و دانشورانہ مقام کے طورپر اپنی شناخت قائم کی ہے۔

پروفیسر پریتی شرما، صدر شعبہ تاریخ و ثقافت کے خطبہ ئ استقبالیہ سے پروگرام کا آغاز ہوا۔انھو ں نے جامعہ کے سماجی ترقی پذیر اخلاقیات اور شعبے کی تنقیدی علمیت کی روایت کو یاد کرتے ہوئے اجلاس میں شریک مہمانان، مقررین، فیکلٹی اور طلبہ کا والہانہ خیر مقدم کیا۔انھوں نے پروفیسر حسن کی تاریخ نویسی کے مخصوص انداز،علمی مباحث کے انداز کو نئی جہت دینے اور جامعہ کی تعلیمی و انتظامی ترقی میں ان کی خدمات کا جائزہ پیش کیا۔

اس کے بعد شعبے میں تدریسی فرائض انجام دے رہے اور پروفیسر مشیر الحسن کے سابق شاگرد ڈاکٹر جاوید عالم کا یادگاری خطاب ہوا۔ڈاکٹر عالم نے اپنے استاد کی چھتیس سالہ جامعہ کی ملازمت کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کے شان دار علمی کیرئیر جس میں انھوں نے سترہ کتابیں تصنیف کیں اور چھتیس کتابوں کی ترتیب و تدوین کی ان کی مفصل اور محبت و خلوص سے بھرپور تصویر پیش کی۔ڈاکٹر عالم نے محمد علی جوہر جیسی شخصیات اور ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق مسخ شدہ بیانیوں کی ان کی تصحیح کے سلسلے میں پروفیسر مشیر الحسن کے علمی کارنامے بھی اجاگر کیا۔نیز انھوں نے پروفیسر مشیر الحسن کے بطور صدر شعبہ،ڈین، نائب شیخ الجامعہ اور آخر کارشیخ الجامعہ جس میں انھوں نے تیس نئے مراکزقائم کیے،تین سو پچیس فیکلٹی آسامیاں لائے،دارالاقاموں کی توسیع کی اور کیمپس میں علمی فضا کو مضبوطی و استحکام عطا کیا ان کی انتظامی بصیرت پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔

ممتاز مورخ اور ’گیٹنگ تو نو گاندھی: اے بایو گریفرس جرنی‘ کے سوانح نگار پروفیسر رام چند ر ا گوہا کا کلیدی خطبہ پروگرام کی سب سے خاص بات تھی۔پروفیسر گوہا کا تعارف کراتے ہوئے شعبے میں ایم۔ اے۔ کی طالبہ فرزانہ فضل نے پروفیسر گوہا کا تعلیمی پس منظربتایاجس میں دہلی اسکول آف اکونومکس اور آئی آئی ایم کولکتہ، یالے، اسٹینفورڈ اور ایل ایس سی میں ان کی فیلوشپ اور ماحولیاتی تاریخ،سیاست اور کرکٹ تک میدانوں پر پھیلی ان کے متنوع کاموں کی تفصیلات شامل تھیں۔

اپنے لیکچر میں گوہا نے پروفیسر مشیر الحسن کے ساتھ آرکائیوز میں انیس سو بیاسی میں اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر حسن کی کشادہ ظرفی،فیاضی اورعالمانہ قیادت کی تعریف کی۔انھوں نے اپنے سفر کو مہاتما گاندھی کے سوانح نگار کے طورپر پیش کیا اور گاندھی کی زندگی کے چند نامعلوم واقعات بھی بتائے۔ گاندھی کے قدامت پرستانہ اور غائی تصوریت اور ان کی سیاسی تحریک سے پرے پروفیسر گوہا نے واضح کیا کہ انیس سو ساٹھ سے گاندھی کی شبیہ کو کس طرح مختلف انداز میں پیش کیا جاتارہاہے۔ گاندھی جی کے افریقہ میں دوران قیام سے لے کر ماحولیات اور ذات پات مخالف تحریک پر ان کے گہرے اثرات سے مثالیں دے کر گوہا نے انتہائی دلنشیں انداز میں بتایا کہ ان کی سوانح تحریر کرنے کے زمانے میں انھیں گاندھی کی شخصیت کی متعدد جہات کا علم ہواجن کا تعلق کھیل کود اور سماجی درجہ بندی سے لے کر چپکو آندولن جیسی تحریک کے ماحولیاتی تشویشات سے تھا۔ہندوستانی علمی اکائیوں کو خاص طورپر سوانح نویسی کے تناظر میں کس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے اس پر اظہار خیال کے ساتھ لیکچر اختتام پذیر ہوا۔اس کے بعد پروفیسر عرفان حبیب نے تبصرہ کرتے ہوئے ہندوستان کی متنوع علمی روایات کو اجاگر کیا اور تکثیری تناظر میں گاندھی کے مقام کا تعین کیا۔

پروفیسر مظہر آصف شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ پروگرام کے مہمان خصوصی تھے انھوں نے صدارتی گفتگو کی۔انھوں نے خود پر گاندھی اور پریم چند کے اثرات کا ذکر کیا اور بتایا کہ جامعہ کس طرح کامیابی کے ساتھ ان کی وراثتوں کو آگے لے جارہی ہے۔انھوں نے علم،تعلیم اور تربیت کے جامعہ کے فلسفے پر زور دیا اور کہاکہ تعلیم کی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی ترقی بھی ضروری ہے۔نیز انھوں نے پروفیسر مشیر الحسن کی خدمات کے بنیادی سروکار یعنی حاشیائیت کے چیلینج سے نمٹنے کے ضرورت پر بھی بات کی۔

شعبہ تاریخ و ثقافت کے ایم۔اے کی طالبہ ثانیہ آفرین نے پروگرام کی نظامت کی اور ایک ایم۔اے کی ایک دوسری طالبہ ہنسیکا نے شکریے کی رسم ادا کی جس کے بعد قومی ترانے کی نغمہ سرائی عمل میں آئی۔