· جماعت اسلامی ہند نے غزہ جنگ بندی کا کیا خیر مقدم

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 12-10-2025
 · جماعت اسلامی ہند نے غزہ جنگ بندی کا کیا خیر مقدم
· جماعت اسلامی ہند نے غزہ جنگ بندی کا کیا خیر مقدم

 



نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے غزہ میں طویل خونریزی کے بعد اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کو ایک ’ مثبت اور امید افزا قدم ’  قرار دیا ہے۔
میڈیا کے لیےجاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ہم اس جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہیں جو غزہ کے تباہ حال عوام کے لیے ایک طویل انتظار کے بعد راحت کا موقع لے کر آئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہم اس بات کو بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ حقیقی امن اور انصاف اُس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک ایک مکمل خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کا وجود عمل میں نہ آ جائے۔ ایک ایسی ریاست جہاں فلسطینی عوام اپنی سرزمین پر عزت، تحفظ اور آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ اب دنیا کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ یہ جنگ بندی ایک جامع اور منصفانہ امن کی بنیاد بنے ، نہ کہ محض ایک اور وقفہ جس کے بعد تباہی کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ دنیا بھر کے اُن بہادر اور با اصول لوگوں کی بھی تعریف کی جانی چاہئے جنہوں نے اس پیش رفت کو ممکن بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انسانیت پر مسلط اس جنگ نے بہت سی حکومتوں کی منافقت کو بے نقاب کیا ہے لیکن ساتھ ہی دنیا بھر کے عام انسانوں کے دلوں میں موجود ہمدردی اور ضمیر کی روشنی کو بھی اجاگر کیا ہے۔ ان کے احتجاج، اخلاقی بے چینی اور یکجہتی نے اس امید کو زندہ رکھا ہے کہ انسانیت اب بھی سانس لے رہی ہے۔ یہ اخلاقی بیداری اس وقت تک زندہ اور فعال رہنی چاہیے جب تک فلسطینی عوام اپنی زمین پر آزاد ، خودمختار اور خوف و محاصرے سے پاک زندگی نہ گزارنے لگیں۔
امیر جماعت اسلامی سید سعادت اللہ حسینی نے جنگ بندی معاہدے کے تحت غزہ میں ایک شہری حکومت کے قیام کی ضرورت پر زور دیا اور بیرونی مداخلت کے خطرات سے خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ امر یقینی بنایا جائے کہ نگرانی یا استحکام کے نام پر فلسطینی عوام پر کوئی ناپسندیدہ غیر ملکی قوت مسلط نہ کی جائے۔ غزہ کا انتظام خود فلسطینی عوام کی مرضی اور امنگوں  کے مطابق ہونا چاہیے۔انہوں نے انسانی ہمدردی اور تعمیرِ نو کی فوری کوششوں کے لیے عالمی  سطح پر مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا کہ غزہ کے عوام خوراک، ادویات، رہائش کی سہولیات کے شدید بحران کا شکار ہیں۔ اسپتال ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، بچے کھنڈرات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لوگ پانی اور بجلی کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا اب ان حالات سے منہ نہیں موڑ سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فیصلہ کن، منظم اور عالمی سطح کی کوششوں کے ذریعے گھروں، اسکولوں اور اسپتالوں کی ازسرنو تعمیر کی جائے اور اس برباد خطے میں زندگی اور وقار کو بحال کیا جائے۔ ہر ایک دن کی تاخیر معصوم جانوں کے ضیاع کا سبب بن رہی ہے۔
سید سعادت اللہ حسینی نے فلسطینی عوام کی ثابت قدمی اور استقامت کو پوری انسانیت کے لیے ایک اخلاقی مشعل قرار دیا ۔غزہ کے عوام کا حوصلہ، صبر اور غیر متزلزل ایمان پوری دنیا کے لیے تحریک کا سرچشمہ ہے۔ انہوں نے ناقابلِ بیان مصائب کے باوجود اپنی سرزمین کے دفاع میں استقامت دکھائی ہے۔ ان کی ثابت قدمی صرف اپنی سرزمین کا دفاع نہیں بلکہ انسانی ضمیر کے دفاع کے مترادف ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ جنگ بندی انصاف اور مساوات پر مبنی ایک پائیدار امن کی ابتداء ثابت ہو۔ فلسطینی عوام نے دنیا کی خاموشی کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ انسانیت، آزادی، سچائی اور اپنے اخلاقی وجود کے دفاع کے لیے فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو۔انہوں نے حکومت ہند سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ جنگ کے بعد تعمیرِ نو کے عمل میں اصولی اور فعال کردار ادا کرے۔ فلسطین کے لیے اپنے تاریخی موقف کی تجدید کرے اور ایک مکمل خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم سفارتی کوششوں کو تیز کرے جو عوام کی مرضی سے آزادانہ طور پر چلائی جائے اور جسے عالمی برادری تسلیم کرے