قانون کی تشریح حقیقت پسندی پر مبنی ہونی چاہیے: چیف جسٹس آف انڈیا

Story by  PTI | Posted by  [email protected] | Date 05-07-2025
قانون کی تشریح حقیقت پسندی پر مبنی ہونی چاہیے: چیف جسٹس آف انڈیا
قانون کی تشریح حقیقت پسندی پر مبنی ہونی چاہیے: چیف جسٹس آف انڈیا

 



ممبئی: چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بھوشن رام کرشن گوئی نے کہا ہے کہ قانون اور آئین کی تشریح حقیقت پسندی پر مبنی ہونی چاہیے اور اسے سماجی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بات ممبئی ہائی کورٹ کی جانب سے ان کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں کہی، جہاں انہوں نے عدلیہ کی ذمہ داریوں اور ججوں کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

چیف جسٹس گوئی نے کہا کہ کسی بھی قانون یا آئینی شق کی تعبیر وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کی جانی چاہیے، تاکہ عوام کے موجودہ مسائل کا مؤثر حل ممکن ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ تشریح کا انداز عملی ہونا چاہیے اور اسے بدلتے ہوئے سماجی حالات کے مطابق ڈھلنا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ ججوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر اور قانون کے مطابق فیصلے کریں، اور فیصلہ سنا دینے کے بعد کسی بھی قسم کے دباؤ یا تذبذب کا شکار نہ ہوں۔

انہوں نے عدلیہ کی آزادی کو جمہوریت کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قیمت پر عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس گوئی نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کے وقت کولیجیم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تقرریاں صرف میرٹ کی بنیاد پر ہوں، لیکن ساتھ ہی اس میں تنوع اور شمولیت جیسے اصولوں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

چیف جسٹس نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ حالیہ دنوں میں انہیں اپنے بعض ساتھی ججوں کے غیر مناسب رویے کی متعدد شکایات موصول ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جج بننا صرف 10 سے 5 بجے کی نوکری نہیں بلکہ یہ ایک عظیم خدمت ہے، جو سماج اور ملک دونوں کی فلاح کے لیے کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ججوں کو اپنے طرز عمل سے ادارے کی ساکھ کو مجروح نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ ساکھ کئی نسلوں کے ججوں اور وکلاء کی قربانیوں اور دیانتداری سے قائم ہوئی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ عدلیہ ایک عظیم ادارہ ہے، اور اس کی حرمت اور عزت کو برقرار رکھنا تمام ججوں کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو شخص عدلیہ کا حصہ بنتا ہے، اسے اس کی عظمت اور وقار کا مکمل احساس ہونا چاہیے، اور اپنے کردار و عمل سے اس ادارے کو مزید مضبوط بنانا چاہیے۔