مسلمانوں کے شاندارماضی کی گواہ ہندوستان کی عالیشان مسجدیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-04-2021
جامع مسجد، دہلی
جامع مسجد، دہلی

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی


جامع مسجد، دہلی

دہلی کی جامع مسجد ملک کی سب سے بڑی اور سب سے پرانی مسجدوں میں سے ایک ہے۔ اس عالیشان مسجد کو مغل بادشاہ، شاہ جہاں نے سرخ پتھروں سے تعمیر کرایا تھا۔یہ مسجد مغل عہد میں تعمیر شدہ سب سے خوبصورت اور وسیع مسجد ہے۔ اس کی عمارت انتہائی دلکش اور فنکارانہ انداز میں بنی ہوئی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر 1650 سے 1656 کے درمیان ہوئی۔

پرانی دہلی میں لال قلعہ سے محض 500 میٹرکے فاصلے پر جامع مسجد واقع ہے۔ اسے بننے میں 6 سال کا وقت اور 10 لاکھ روپئے لگے تھے۔بلوا پتھر اور سفید سنگ مرمر سے تعمیر اس مسجد میں تین بلند وبالا دروازے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مشرقی دروازہ، جس کا نام شاہجہاں گیٹ ہے، کا استعمال بادشاہ کیا کرتا تھا۔

مسجد میں گیارہ محرابیں ہیں اوردرمیان والی محراب دوسری محرابوں سے کچھ بڑی ہے۔ اس کے اوپر بنے گنبد وں کو سفیدسنگ مرمرسے بنایا گیا ہے اور سیاہ سنگ موسیٰ کی دھاریوں سے سجایا گیا ہے جن کی تعداد تین ہے۔ عمارت کی دونوں جانب دو اونچے اونچے مینار ہیں۔ مسجد ایک بلند پہاڑی پر بنائی گئی ہے لہٰذا دور سے نظر آتی ہے۔

تاج المساجد،بھوپال

 تاج المساجد ،بھوپال کا اہم لینڈ مارک مانی جاتی ہے۔یہ مسجد، ہندوستان کی پرانی مسجدوں میں سے ایک ہے۔ اسے ملک کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ اس عالیشان مسجد کی ساخت انتہائی پرکشش اور خوبصورت ہے۔ یہ مسجد گلابی رنگ کی ہے اور اس کے گنبد سفید رنگ کے ہیں۔ اس مسجد کو اس لئے بھی یاد کیا جاتا ہے کہ یہاں تبلیغی جماعت کا عالمی اجتماع ہوتا ہے۔

مکہ مسجد

مکہ مسجد، حیدرآباد کی سب سے پرانی مسجدوں میں سے ایک ہے بلکہ اسے ملک کی سب سے بڑی مساجد میں شمار کیا جاتا ہے۔یہاں کے حکمراں اور حیدرآباد شہر کے بانی محمد قلی قطب شاہ نے اس مسجد کی تعمیر کروائی تھی۔ 16 ویں صدی کی اس مسجد کو دیکھ کرآج بھی ہندوستانیوں کاسر فخرسے بلند ہوجاتا ہے۔مکہ مسجد کی تعمیر کا کام 1617 میں شروع ہوااور 1694 میں مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں مکمل ہوا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بنانے میں تقریبا 8000 لوگوں نے کام کیا اور 77 سال لگے۔

جامع مسجد،سری نگر

جامع مسجد سری نگر (کشمیر) ،سری نگر کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی مسجدوں میں سے ایک ہے ۔اس مسجد کی طرز تعمیر میں برطانوی فن تعمیر کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔یہاں آنے والے اس کی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ مسجد کا بڑا ہال جس میں نماز ادا کی جاتی ہے، بے حد وسیع وعریض ہے۔ 370 کھمبوں پر کھڑی یہ مسجد اتنی بڑی ہے کہ اس کے اندر تقریبا 30ہزار لوگ ایک ساتھ نماز ادا کر سکتے ہیں۔

آگرہ کی جامع مسجد

 مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی سب سے پیاری بیٹی جہاں آرا بیگم کی یاد میں آگرہ کی اس مسجد کو بنوایا تھا، جو 1648 میں تعمیر کی گئی تھی۔اسے آگرہ کے اہم اور پرکشش تاریخی مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس مسجد کو لال بلوا پتھر اور سفید سنگ مرمر سے سجایا گیا ہے۔یہ بھی بھارت کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ اپنے مینار،منبر اور خاص قسم کے گنبد کے لیے جانی جاتی ہے۔

جامع مسجد فتح پورسیکری

جامع مسجد فتح پور سیکری کی تعمیر 1571 میں مغل بادشاہ اکبر کے دور حکومت میں ہوئی تھی۔ اسی کے زمانے میں یہ شہر بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ سرخ پتھروں سے تعمیر شدہ یہ شہر زیادہ دن آباد نہیں رہا مگر تعمیری نکتہ نظر سے یہ اتنا خاص تھا کہ سیاح آج بھی اسے دیکھنے آتے ہیں۔ شہر کے آثار آج بھی شاندار لگتے ہیں۔شاہی عمارتوں سے متصل ہی جامع مسجد ہے اور یہیں مشہور صوفی حضرت شیخ سلیم چشتی کی درگاہ بھی ہے۔

یہ شاندار مسجد ہے۔ وسیع وعریض ہونے کے ساتھ ساتھ طرز تعمیر کے لحاظ سے بھی خاص ہے۔ایک بلند پہاڑی کے اوپر ایک بڑے سے احاطے میں یہ مسجد واقع ہے۔مسجد کا برآمدہ بہت بڑا ہے اور اس کی دونوں جانب جماعت خانہ ہے۔ جامع مسجد میں کھڑے ہوکر شیخ سلیم چشتی کی مزار پر نظر پڑتی ہے جو کلاکاری کا حیرت انگیز نمونہ ہے۔ پوری جامع مسجد خوبصورت نقاشی اور رنگا رنگ پتھروںسے سجی ہوئی ہے۔ بلند دروازے سے ہوتے ہوئے جامع مسجد تک پہنچا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ یہاں بادشاہی دروازہ بھی ہے۔ ان دروازوں کی خوبصورتی بھی دیکھتے بنتی ہے۔