ہزاروں سال سے روحانی رشتوں میں بندھے ہیں ہندوستان اور افغانستان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
درگاہ خواجہ مودودچشتی،چشت شریف،افغانستان
درگاہ خواجہ مودودچشتی،چشت شریف،افغانستان

 

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

افغانستان پر طالبان کے قبضے نے دنیا کے سامنے ایک اہم سوال کھڑا کردیا ہے کہ کیا جنوب ایشیا میں شدت پسندی اور انتہاپسندی کا دور ختم ہوگایا اس میں اضافہ ہوگا؟ یہ سوال اس لئے بھی اٹھ رہا ہے کہ افغانستان ہزارہاسال سے روحانیت کا مرکز رہاہے اور افغانستان وہندوستان کے روحانی رشتے باہم مربوط رہے ہیں۔ گندھاراتہذیب اورگوتم بدھ کی تعلیمات کے حوالے سے دونوں ممالک کی ثقافتی اور روحانی یکجہتی رہی ہے۔ علاوہ ازیں دونوں ملکوں کے بیچ تہذیبی اورتجارتی تعلقات بھی مستحکم رہے ہیں۔

پارسی مذہب کے بانی زرتشت کی جائے پیدائش بھی افغانستان کا بلخ علاقہ ہے جہاں سے ان کی تعلیمات دنیا بھر میں پھیلیں۔ ہندوستان بھی پارسی آبادی والا ملک رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ موجودہ دور میں یہاں پارسی بہت کم بچے ہیں۔

پریم کے دھاگے میں بندھے دوملک

اسلام کے ظہور کے بعد ہندوستان اورافغانستان کے روحانی رشتوں میں مزید مضبوطی آئی کیونکہ ہندوستان(غیرممنقسم) آنے والے اہل تصوف کا بڑا طبقہ افغانستان سے آیا تھا یا افغانستان کے راستے سے آیا تھا۔ خاص طور پر چستی سلسلہ جس نے برصغیرکی ثقافت کو زیادہ متاثر کیا،اس کا آغاز افغانستان سے ہی ہوا۔ خواجہ معین الدین چشتی اور ان کے روحانی سلسلے سے بہت پہلے شیخ علی ہجویری لاہور تشریف لائے تھے جن کی قبر آج بھی یہاں موجود ہےاور داتاگنج بخش کے لقب سے دنیا انھیں جانتی ہے۔

awaz

داتاصاحب کا تعلق افغانستان سے ہی تھا۔ آپ کا پورا نام ابو الحسن علی ہجویری ہے۔ کچھ لوگ ’’جلابی‘‘ بھی کہتے ہیں۔اصل میں آپ آج سے لگ بھگ ہزار سال قبل غزنی شہر سے متصل ایک بستی ’’ہجویر‘‘ میں پیدا ہوئے۔ آپ کو ’’جلابی‘‘ اس لئے کہتے ہیں کہ جلاب بھی غزنی سے متصل ایک دوسری بستی ہے جہاں آپ کے والد سید عثمان جلابی رہتے تھے۔

داتاگنج بخش نے افغانستان سے آکر لاہور میں قیام کیا تھا اور تصوف کی تعلیمات کو عام کرنے اور لوگوں کی روحانی رہنمائی کا کام کیا تھا۔ آپ نے روحانیت وتصوف کے موضوع پر کئی کتابیں تحریرکیں جن میں سے ایک کتاب آج تک محفوظ ہے۔ اس کا نام ’’کشف المحجوب‘‘ہے۔ یہ فارسی زبان میں تصوف کے موضوع پر پہلی کتاب ہے۔دنیا بھر کے اہل تصوف میں مقبول ہے اور برصغیر میں تصوف کی اشاعت میں اس کا اہم رول ہے۔سلطان المشائخ نظام الدین اولیانے بھی اس کتاب کی تعریف کی ہے۔

چشتی سلسلہ کہاں سے آیا؟

خواجہ معین الدین چشتی جنھیں برصغیر کے صوفیہ میں سب سے زیادہ احترام کا مقام حاصل ہے،افغانستان کے ہی رہنے والے تھے۔ ہرات کے علاقے میں ایک خطہ سیستان ہے، یہیں سنجرگائوں میں ان کی پیدائش ہوئی۔ حالانکہ تب یہ علاقہ ایران کے ماتحت تھااور ایک مدت تک خراسان حکومت کے ماتحت رہا مگر اب خراسان کوئی آزاد ملک نہیں ہے بلکہ افغانستان کا ہی حصہ ہے۔البتہ سیستان کے بعض علاقے آج بھی ایران میں شامل ہیں۔

awaz

سلسلہ چشتیہ جس نے برصغیرہندوپاک اور بنگلہ دیش کو سب سے زیادہ متاثرکیا،اس کی جائے پیدائش بھی یہی خطہ ہے۔چشت، صوبہ ہرات کا ایک مشہور زمانہ گائوں ہے ۔ یہ وہی مقام ہے جس کی نسبت سے چشتیہ سلسلے کانام پڑا۔ خواجہ ابو اسحاق یہیں کے رہنے والے تھے جن کی نسبت سے اس سلسلے کو چشتی سلسلہ کہاجاتاہے۔

چشتی سلسلہ نے اک جہان کو متاثر کیا اور بندگان خداتک امن و محبت اور بھائی چارہ کا پیغام پہنچانے کا بڑا کام کیا۔ چشتی سلسلے کے بزرگوں نے پورے ملک میں خانقاہیں قائم کیں، لنگر جاری کئے اور خدمت خلق میں مصروف رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ بھوکوں کو کھانا کھلاناسب سے بڑی عبادت ہے اور اللہ کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔

دوسرے افغان بزرگ

مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے قریبی لوگوں میں ایک مولانا مظفر بلخی بھی تھے جوابراہیم بن ادھم بلخی کی اولادسے تھے اورہندوستان کے صوبہ بہار کے مقام بہارشریف  چلے آئے تھے، بعد میں اپنے شیخ کے جانشیں بھی بنے۔مظفر بلخی نے مخدوم جہاں کی نگرانی میں خوب ریاضت و مجاہدہ کیا۔

انھوں نےعلمی میدان میں نمایاں کام کئے اور کئی کتابیں تصنیف کیں۔ انھوں نے فارسی کے علاوہ ہندی میں بھی شاعری کی۔انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام مکہ، مدینہ اور عدن میں گذارےاور عدن میں ہی قبر بھی ہے۔ مخدوم جہاں کے عقیدت مندوں میں بڑی تعداد میں افغان صوفیہ تھے جن میں سے چند کے نام ہیں:مخدوم احمد دریا،مخدوم حسن جشن دائم بلخی، ابراہیم بلخی، جیون بلخی وغیرہ۔

جن کی تعلیمات برصغیر میں پھیلیں

شیخ الاسلام بہاؤ الحق و الدین زکریا ملتانی سُہروردی،انھیں صوفیہ میں شامل ہیں جن کا تعلق افغانستان سے تھا۔ انھوں نے تعلیم کے سلسلے میں کئی علاقوں کی خاک چھانی جن میں بلخ بھی شامل ہے۔

افغانستان سے ہندوستان آنے والے صوفیہ کی بڑی تعداد ہے لیکن ایسے صوفیہ بھی خاصی تعداد میں ہیں جو اگرچہ ہندوستان نہیں آئے مگر ان کے نظریات آئے اور ان کی معنوی اولاد ان کے پیغام کو لے کر یہاں آئی۔

ایسے بزرگوں میں ایک نام جناب ابراہیم ادہم کا ہے جو کبھی بلخ کے بادشاہ تھے مگرشاہی تخت وتاج کو لات مارکرفقیری کا راستہ اپنایا۔ ان کا نام کئی صوفی سلسلوں میں آتاہے۔

اسی طرح شفیق بلخی بھی ایک معروف صوفی گزرے ہیں جو مختلف صوفی سلسلوں کا حصہ ہیں۔ ایسے بزرگوں میں ایک نام مولانا جلال الدین رومی کا بھی ہے جن کا میدان عمل ترکی تھا مگر جائے پیدائش افغانستان کا بلخ علاقہ ہے۔ ہرات میں مولانا عبدالرحمٰن جامی کی قبر ہے جوصوفی وعالم تھے۔ ان کی صوفیانہ شاعری کوعالمی قبولیت حاصل ہوئی اور ان کی تحریرکردہ کتاب شرح ملاجامی دینی مدرسوں کے نصاب میں صدیوں سے شامل چلی آرہی ہے۔