نئی دہلی/ آواز دی وائس
چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی نے بھگوان وشنو کو لے کر کی گئی اپنے تبصرہے پر ایک بڑا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی نے مجھے بتایا کہ میں نے جو تبصرہ کیا تھا اسے سوشل میڈیا پر غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ دراصل منگل کو مدھیہ پردیش کے کھجوراہو سمارک گروپ کے تحت آنے والے جاوری مندر میں بھگوان وشنو کی 7 فٹ اونچی سر کٹی مورتی کی دوبارہ بحالی کی مانگ والی عرضی پر سپریم کورٹ نے سماعت سے انکار کر دیا تھا۔
اس پر سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ میں پچھلے 10 سال سے چیف جسٹس کو جانتا ہوں۔ یہ ایک سنگین بات ہے۔ ہم نیوٹن کا قانون جانتے تھے کہ ہر عمل کا برابر کا رد عمل ہوتا ہے، لیکن اب ہر عمل پر سوشل میڈیا پر غیر مساوی رد عمل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے تمام مذہبی مقامات کا دورہ کیا ہے۔ وہیں کپل سبل نے کہا کہ ہم ہر دن اذیت برداشت کرتے ہیں، یہ ایک بے قابو گھوڑا ہے اور اسے قابو میں کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیپال میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
سی جے آئی بی آر گوائی نے کہا تھا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ بھگوان وشنو کے بھگت ہیں تو ان سے دعا کیجیے۔ ہندوستان کے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ نے کہا کہ یہ معاملہ عدالت کا نہیں بلکہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ چیف جسٹس گوی نے درخواست گزار سے کہا تھا کہ جائیے اور بھگوان سے ہی کچھ کرنے کے لیے کہیے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ بھگوان وشنو کے کٹر بھگت ہیں، جائیے اور ابھی دعا کیجیے۔ یہ ایک آثار قدیمہ کا مقام ہے اور اے ایس آئی کو اس کی اجازت دینی ہوگی۔
سی جے آئی کی ان تبصروں پر سوشل میڈیا میں ان کی تنقید شروع ہو گئی۔ دو وکلاء نے خط لکھ کر اپنا احتجاج درج کرایا۔ دراصل راکیش دلال کی جانب سے دائر عرضی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مغل حملوں کے دوران مورتی کو نقصان پہنچایا گیا تھا اور حکومت سے اسے دوبارہ بحال کرنے کے لیے بار بار درخواست کرنے کے باوجود یہ اسی حالت میں کھڑی ہے۔ عرضی میں اصل طور پر چندر ونشی راجاؤں کے ذریعہ تعمیر کیے گئے کھجوراہو مندروں کی تاریخ بیان کی گئی تھی۔
یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ نوآبادیاتی دور کی لاپروائی اور آزادی کے بعد کی بے عملی کے باعث آزادی کے 77 سال بعد بھی مورتی کی مرمت نہیں ہو سکی ہے۔ درخواست گزار نے دلیل دی کہ مورتی کی بحالی سے انکار کرنا عقیدت مندوں کے عبادت کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ عرضی میں مندر سے متعلق احتجاجوں، یادداشتوں اور مہمات کو اجاگر کیا گیا جن کا کوئی جواب نہیں ملا۔