کورونا کی جانباز نصرت عزیز کی بے مثال خدمات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
ایام کورونا کی جانباز نصرت عزیز کا کارکردگی
ایام کورونا کی جانباز نصرت عزیز کا کارکردگی

 

 

آواز  دی  واءس،  سری  نگر

 جموں و کشمیر کے ضلع بڈگام کی معروف سماجی کارکن وتحصیل دار نصرت عزیز اپنے علاقے میں ہمہ وقت اپنے کاموں میں مصروف نظر آتی ہیں۔ یہ بات سن 2020 کے موسم گرما کی ہے،جب کہ سماجی کارکن نصرت عزیز کے علاقہ دیگر انتظامیہ کی جانب سے ان طلباء اورسیاحوں اور دیگر افراد کی دیکھ بھال کی جا رہی تھی، جو کورونا وائرس کے بع گھر واپس لوٹ رہے تھے۔

دریں اثنا نصرت عزیز کو معلوم ہوا کہ کورونا وائرس کے خوف سے ایک خاتون سیاح نے خود کو ہوٹل کے ایک کمرے میں بند کرلیا تھا۔ ہوٹل کے عملے نے اس کی اطلاع انتظامیہ کو دی مگر خاتون نے انتظامیہ کے اآنے کے بعد بھی کمرہ نہیں کھولا۔

جب انتظامیہ نے ان کے کمرہ پر دستک دی تھی، اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وہ کسی سے بات کرنا،دیکھنا یا ملنا نہیں چاہتی۔

خیال رہے کہ انتظامہ کے ہمراہ نصرت بھی گئی ہوئی تھیں۔ حتیٰ یہاں تک کہ وہ ہوٹل میں پیش کردہ کھانے سے بھی انکار کر رہی تھی۔ تمام انتظامات حکومت نے ادا کیے۔

  دوسرے دن دوبارہ نصرت وہاں گئی اور انھوں نے کسی طرح سے مذکورہ سیاہ سے بات کی۔ بالآخر نصرت عزیز واش روم کے راستے ان کے کمرے کے اندر جانے میں کامیاب ہوگئیں۔

نصرت نے بتایا کہ کہ ان کے کمرے میں کتابیں بکھری ہوئی تھیں، مذکورہ خاتون کوئی مصنفہ تھیں۔ نصرت نے ان سے گفت و شنید کی، اس کے بعد انہیں ان کے گھر واپس بھیج دیا گیا۔ دراصل مذکورہ خاتون سیاح گلمرگ گھومنے کے لیے اآئی ہوئی تھیں، مگر پروازیں نہ چلنے کے سبب انھوں نے خود کو کورنٹائن کر لیا تھا۔ نصرت کی کوششوں سے انہیں واپس اپنے گھر بھیج دیا گیا۔۔نصرت بتاتی ہیں کہ وہ ان کی ایک اچھی دوست بن گئیں ہیں۔

نصرت عزیز کی عمر اس وقت 40 برس ہے وہ تین بچوں کی ماں ہے۔انہیں حال ہی میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی ایک تنظیم(International Human Rights Organisation) کی جانب سے ایک اآن لائن اجلاس کے دوران کووڈ-19 سے لڑنے میں نمایاں کردار پر تعریفی کورونا واریر کا ایوارڈ( Appreciation Corona Warrior) دیا گیا ہے۔

سماجی کارکن جاوید اقبال تحصیل دار نصرت عزیز کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کی کاوشوں سے بڈگام میں ہزاروں افراد کی زندگیاں بچی ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ آنے والے وقتوں میں بھی وہ کشمیر میں کورونا وائرس کے تئیں کام کریں گی۔

نصرت عزیز نے ایوارڈ ملنے پر کہا کہ میں یہ ایوارڈ اپنے اہل خانہ کو منسوب کرتی ہوں، کیوں کہ ان کی کوششوں سے ہی میں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ اس ضمن انھوں نے مزید کہا کہ سنہ 2020 میں کورونا وائرس کی لہر انتہائی چیلنجنگ تھی کیونکہ وہاں کوئی پروٹوکول نہیں تھا، اس لیے زیادہ پریشانی ہوتی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ کووڈ ۔19 کی دوسری لہر میں صورتحال بہت بہتر ہے کیونکہ سارے نظام اور پروٹوکول ہموار ہیں۔ تاہم کورونا ویکسین کو لے لوگوں میں ہچکچاہٹ ہے، جس سے نمٹنے کا چیلنج اس مرحلے میں سب سے زیادہ مشکل ہے۔

نصرت عزیز ان دنوں ویکسینیشن کے تعلق سے مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور لوگوں کو بتا رہی ہیں کہ اس کو لینے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ انھوں نے کہ میں ایک ماں ہوں اور میں نے ویکسینیشن لی ہے اور اس سے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے، اب میں دوسروں کی مدد کرنے میں دلچسپی لے رہی ہوں۔ تاہم ، جموں و کشمیر میں ویکسینیشن میں کامیابی کی اس کہانی کے پیچھے نصرت عزیز جیسے منتظمین کی محنت کا ثمرہ ہے۔

وہ دن بھر پی پی ای کٹ پہن کر کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی مدد میں لگی رہتی تھیں اور رات کو دیر گئے واپس اآتی تھیں۔اس وجہ سے انہیں اپنے بچوں سے مسلسل دور رہنا پڑتا تھا کہ کہیں وبا کا اثر ان کے بچوں میں چلا جائے۔

ان کے تینوں بچوں کو سمجھایا گیا تھا کہ ان کی والدہ لوگوں کی زندگیاں بچا رہی ہیں اور انہیں ان کے قریب نہیں جانا چاہئے۔  اس تعلق سے وہ کہتی ہیں کہ مجھے اپنے بچوں سے الگ رہنا پڑتا تھا، جو میرے لیے ایک تکلیف دہ عمل تھا۔

تحصیل دار نصرت عزیز  کے  شوہر بھی ریاستی حکومت کے محکمہ محصول میں تعینات ہیں، انھوں نے بھی ان کا بھر پور تعاون دیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلِ خانہ اور خاص طور پر شوہر کے تعاون کے سبب وہ سماجی و فلاحی کاموں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ان کے شوہر ان کی مدد نہ کرتے تو ان کے لیے سماجی کام کرنا مشکل ہوجاتا۔