لکھنوکی تہذیب،راکھی کے دھاگے اور محبت کی زنجیریں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-08-2021
راکھی کے دھاگے اور محبت کی زنجیریں
راکھی کے دھاگے اور محبت کی زنجیریں

 

 

لکھنو:اودھ اپنی تہذیب، ثقافت اور مذہبی رسم و رواج کے حوالے سے بھی ایک ایسی ریاست رہی ہے جس کی کوئی دوسری نظیر نہیں۔ بات اگر رکشا بندھن یا راکھی کے تہوار کے حوالے سے کریں تو اس دھاگے اور بندھن کی تاریخ بھی بہت روشن اور نہایت مضبوط نظر آتی ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ نوابین اودھ نے رشتوں کے احساس اور پاس کے لئے نہ صرف اپنے قول و عمل کو تاریخ کا حصہ بنا دیا بلکہ اس دھاگے کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے اپنے ایوانوں اور درباروں کے دوار و دروازے بھی بہنوں کی حفاظت اور امداد کے لئے ہمیشہ کھولے رکھے۔

نواب مسعود عبد اللہ کہتے ہیں کہ نوابین اودھ کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں جب نوابوں ، شاہوں اور تعلق داروں نے اپنی ہندو بہنوں کی عزت ناموس، دولت اور زندگیوں کی حفاظت کے لئے بہترین اور قابل تقلید قربانیاں پیش کی ہیں۔

انہیں راکھی باندھ کر جاگیریں بھی عطا کیں ، مندروں کی تعمیر کے لئے زمینیں بھی دیں اور دولت و ثروت کے نذرانے پیش کرکے ہندوستان کی قدیم تہذیب کو اپنے عوامل اور عظیم اخلاقی رویوں سے مالا مال کردیا۔

معروف گلوکارہ سنیتا جھِنگرن جب راکھی کی اہمیت اور اپنے مسلم بھائیوں کے عملی رویوں اور ناقابل فراموش سلوک کا ذکر کرتی ہیں تو پورے اودھ کی تہذیب ان کے محبت بھرے آنسووں میں شرابور ہو جاتی ہے۔

سنیتا کہتی ہیں کہ لکھنو کے مسلم بھائیوں نے سگے بھائیوں سے زیادہ پیار دیا ، سوت کے کمزور دھاگے کو اپنی محبت، سرپرستی اور طاقت سے زنجیروں کی طرح اتنا مضبوط بنا دیا جس پر رشک کیا جاسکتا ہے فخر ہوتا ہے۔

زندہ رہنے اور جینے کا حوصلہ ملتا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے تو ان آنسووں کے ساتھ مسکراہٹوں کی آمیزش اس مشترکہ تہذیب کی تصویر کو مزید خوبصورت بناتی ہے۔