آسام : نا مسجد کا 150 سالہ جشن: فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نمونہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 27-11-2021
 نامسجد کے 150 سالہ جشن میں ہندو مسلم کی شرکت
نامسجد کے 150 سالہ جشن میں ہندو مسلم کی شرکت

 

 

سمیتا بھٹاچاریہ/جورہاٹ

ریاست آسام کے ضلع جورہاٹ میں واقع تاریخی نا-مسجد نے اپنے قیام کے 150 سال مکمل کر لیے ہیں اور اس موقع پر انتظامیہ کی جانب سے مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا، جس میں الگ الگ مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔

اس مسجد کے احاطے میں مجاہدِ آزادی بہادر گاون بورہ کے باقیات موجود ہیں۔سن1857 کی بغاوت میں برطانوی حکومت کی جانب سے بہادر گاون بورہ سمیت منی رام دیوان اور پیالی بروا پر مقدمہ چلایا گیا تھا۔ سن 1858 میں پیالی بروا اور منی رام دیوان کو جورہاٹ میں 'پھانسی علی روڈ' پر پھانسی دی گئی، جب کہ بہادر کو جزائر انڈمان اور نکوبار یعنی کالاپانی میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

خیال رہے کہ بہادر کا اصل نام 'بہادل' تھا مگر انہیں بہادر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے انگریزوں نے بہادر گاون بورہ کو جورہٹ اور تیتابر گاؤں کا سربراہ مقرر کیا تھا وہ بہت ہی بہادرآدمی تھے، اپنی بہادری کی وجہ سے بہادر کے نام سے مشہور ہوئے۔بہادر 1819 میں پیدا ہوئے۔ان کی عمر قید کی سزا میں تخفیف کر دی گئی۔ کالا پانی کی سزا سے واپسی کے بعد سن 1891 میں  ڈفلٹنگ میں اپنے بیٹے کی رہائش گاہ پر وہ انتقال کر گئے۔اب یہ مقام جورہٹ کا سب ڈویژن ہے۔ انہیں جورہٹ ضلع کے نیو بالی بٹ میں سپرد خاک کیا گیا۔

a

مسجد ’نا-مسجد‘ کے نام سے اکثر غلطی سے نیا مراد لیا جاتا ہے کیونکہ یہ جورہٹ ضلع میں پرانی بالی بت میں واقع مسجد کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔ جب کہ سچائی اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں لفظ 'نا' کا مطلب ہے نو یعنی 1871 میں مسلم کمیونٹی کے نو(9) افراد نے مل کر اس مسجد کو تعمیر کرایا تھا۔یہ نو افراد ڈاکٹر امجد حسین، فیضو رحمان، حاجی جلال الدین، احمد علی، محمد شاہ، سمدر، عظیم الدین احمد ،سراج الدین احمد اور کام پور سردار تھے۔

نامسجد کی زمین پہور کی تھی۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ انھوں مسجد کے لیے زمین وقف کی تھی۔زمین عطیہ کرنے کے بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ مکہ چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ وہیں آباد ہوئے اور وہیں ان کا انتقال ہوگیا۔نا مسجد ابتداً بانس کے ڈھانچہ کی تھی ۔بہت بعد میں اسے کنکریٹ میں تبدیل کیا گیا۔ 1935-36 میں مسجد کی چھت اور دیوار کنکریٹ کی بنائی گئی۔اس کے علاوہ مسجد کے احاطے میں ایک تالاب بھی بنایا گیا ، جہاں آج بھی مختلف قسم کی مچھلیاں مل سکتی ہیں۔

مسلم اور غیر مسلم کمیونٹیز کی سرکردہ شخصیات ان دنوں مسجد کی 150ویں سال گرہ کے موقع پر منعقد ہونے والی مختلف تقریبات میں شرکت کے لیے نا مسجد کا دورہ کر رہی ہیں۔ نامسجد میں منعقد ہونے والے ایک حالیہ پروگرام میں لیچت سینا نے سید عبدالمالک کی ایک نظم پڑھی، جس کا عنوان تھا: میں ایک آسامی ہوں۔

اس تقریب میں شرکت کرتے ہوئے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، میگھالیہ (USTM) کے چانسلر اور چیرمین، ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن (ERDF)، گوہاٹی محبوب الحق نے تقریر کے دوران تعلیم کی اہمت پر زور دیا۔انہوں نے مسلم کمیونٹی سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہ تعلیم حاصل کریں اور ملک و معاشرے کے خدمت گزار بنیں۔'

انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں ہمارے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنی کمیونٹی کو روشن خیالی کی طرف لے جائیں۔ ہماری کمیونٹی میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے میڈیکل سائنس اور دیگر شعبوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ہمیں ہر میدان میں کامیاب ہونا چاہیے، تاکہ دیگر کمیونٹی ہمیں نظر انداز نہ کرے۔

خیال رہے کہ محبوب الحق نے آسام اور میگھالیہ دونوں جگہوں پر اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے کے لیے یونیورسٹیاں اور کالجز قائم کیے ہیں۔ انہوں نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم کمیونٹی کو عیسائی مشنریوں کے طریقوں کی پیروی کرنی چاہیے، جو تعلیم کے پھیلاو کے لیے کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عیسائی مشنریوں نے معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے دنیا بھر میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی ہیں۔ آسام اور شمال مشرقی ریاستیں اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ شمال مشرق میں زیادہ تر مشہور تعلیمی ادارے جیسے ڈان باسکو اسکول، سینٹ میری اسکول عیسائی مشنریوں نے قائم کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عیسائیوں نے اپنے مذہب کو خدمت خلق میں بدل دیا ہے، ہم مسلمان ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ انہوں نے کہا کہ معیاری تعلیم معیاری انسانی وسائل پیدا کرے گی۔ معیاری افراد آسانی سے ملازمتیں تلاش کر لیتے ہیں اور  دوسروں کے لیے روزگار بھی پیدا کرتے ہیں۔ 

محبوب الحق نے نا مسجد کی 150ویں سالگرہ کی یاد میں ترنگا نامی یادگاری رسالہ بھی جاری کیا۔

a

گوہاٹی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق سربراہ ڈاکٹر منیر الحسین نے حال ہی میں مسجد کا دورہ کرتے ہوئے آسام میں مسلمانوں کی آمد پر ایک دلچسپ تقریر کی۔انہوں نے مسلم کمیونٹی کو تعلیمی اور اقتصادی طور پر بااختیار بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

نامسجد کی 150 سالا تقریب کی آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین توفیق الحسین نے بتایا کہ مسجد کے احاطے میں حال ہی میں ایک لائبریری بھی بنائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لائبریری میں اسلام کی کتابوں کے علاوہ مختلف موضوعات پر کتابیں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ لائبریری میں آکر اپنی پسند کی کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔ توفیق الحسین نے کہا کہ آسام کی ہندو مسلم اتحاد کی شاندار روایت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے آنے والے دنوں میں اور بھی بہت سے پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔