ثنا منصوری : والدہ کے ایثار نے ڈی ایم بننے کی ترغیب دی

Story by  ایم فریدی | Posted by  AVT | 3 Years ago
ثنا منصوری
ثنا منصوری

 

 

۔ ثنا نے یو پی پی ایس سی (سول سروسز ) کے امتحان میں حاصل کی 27 ویں رینک

راکیش چورآسیہ/ للت پور

میری پیدائش نہایت ہی سادہ خاندان میں ہوئی۔ ہمارے سماج میں بیٹیوں کو زیادہ نہیں پڑھایا جاتا ۔ میری والدہ بھی پڑھنا چاہتی تھیں لیکن خاندان کے دیگر افراد نے انہیں پڑھنے نہیں دیا ۔میری والدہ کے دل میں یہ ایک دیرینہ خواہش تھی کہ ان کی بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ میری کامیابی کی سب سے بڑی وجہ میری والدہ کی حوصلہ افزائی ہے ۔

پی پی ایس سی (سول سروسز ) کے امتحان میں 27 ویں رینک حاصل کرنے والی ثنا مزید کہتی ہیں کہ انہوں نے صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑا اور مجھے بھی صبر کے ساتھ کام کو کرنے کی تلقین کی۔

ثنا منصوری ان نوجوانوں کے لئے آئکون ہیں جو وسائل کی کمی کا حوالہ دیتے ہیں- ثنا للت پور کے ایک انتہائی سادہ خاندان سے ہیں- ان کی والدہ فریدہ بیگم کا آبائی گھر جھانسی ہے۔ ثنا کے والد سکندر خان للت پور نگر پالیکا میں کام کرتے ہیں۔

ثنا کہتی ہیں کہ ان کی کامیابی ان کی والدہ کی قربانیوں اور محنت کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ہی ان کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ آغاز سے ہی  فرست دیویزنر ثنا اپنے پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ میری ابتدائی تعلیم ہندی میڈیم سے ہوئی ۔ میں نے 2009 میں انٹر کا امتحان الہ آباد بورڈ سے 84 فیصد نمبروں کے ساتھ پاس کیا ۔ انٹر کے بعد میں نے 2014 میں بے تک الیکٹریکل انجینیرنگ کی پڑھائی جھانسی کے گوورمنٹ کالج کی۔

خوبصورت دل

اپنی ترغیب کے لئے وہ ایک واقعہ کا تذکرہ کرتی ہیں کہ جب میں بی ٹیک کر رہی تھی تب دوستوں کے ایک گروپ کے ساتھ  اطراف کے گاؤں کے بچوں کو تعلیم کے تئیں بیدار کرنے کے لئے وہاں جاتی تھی اور انہیں پڑھاتی تھی۔ اس کے علاوہ وہ بچوں کے دوسرے مسائل کو جاننے کی بھی کوشش کرتی تھی۔ ہم آپس میں مل کر پیسے بھی جمع کرتے تھے تاکہ ان بچوں کو کتابیں مل سکیں۔

جہیز کے رواج سے نالاں انہوں نے بتایا کہ سول سروسز کو منتخب کرنے کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میں خود کو ایسے مقام پر لے جاؤں کہ میں اپنے شہر کی بیٹیوں کے لئے ترغیب بن سکوں۔ ثنا مزید کہتی ہیں کہ ہمارے سماج میں جہیز کا رواج خاصا پرانا ہے۔ اگر ماں باپ کے پاس جہیز کی رقم دینے کے پیسے نہیں ہیں تو اسکا سیدھا مطلب یہی نکلتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے لئے اچھے لڑکے کی امید چھوڑ دیتے ہیں، چاہے ان کی بیٹی اچھی تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔ لڑکوں کا حال یہ ہے کہ وہ اگر سرکاری نوکری میں ہیں تو بیس لاکھ روپے اور انجینیر ہیں تو تیس لکھ روپے جہیز مانگے جاتے ہیں۔ بیٹی کے ماں باپ سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ کی بیٹی کتنی پڑھی لکھی ہے بلکہ یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ پر شادی کرنے کی استطاعت ہے یا نہیں؟

انہوں نے کہا کہ معاشرے کی ان برائیوں کو ختم کرنا اور لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں لوگوں میں بیداری پیدا کرنا ہی میرا مقصد تھا ۔ لہذا میں نے اس امتحان کو دینے کا فیصلہ کیا ۔

طعنہ مار نے والوں کا نظریہ بدل گیا

ثنا کہتی ہیں کہ میں نے اس امتحان کی تیاری گھر پر رہ کر کی۔ گھر پر رہ کر بغیر کسی جاب کے تیاری کرنا میرے لئے چیلنج تھا- آس پاس کے لوگ طعنہ مارنے لگے کہ کیا فائدہ اتنا پڑھنے کا- گھر پر ہی تو بیٹھی ہے۔اس سے بہتر تھا ہم اس کی شادی کر دیتے۔ ان تمام طعنوں کے باوجود میرے والدین کے صبر اور ہمت سے مجھے کافی حوصلہ ملا۔ میرے والدین نے لوگوں کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ کیونکہ انہیں مجھ پر بھروسہ تھا۔

میرے والدین کے میرے اوپر بھروسے نے مجھے کامیاب کیا۔ کل جو لوگ طعنہ مارتے تھے آج وہی لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ اسے بڑی جاب کرنی ہے۔ د وسری کوشش میں ملی کامیبی میں یوپی پی ایس سی کا امتحان پہلی بار 2017 میں دیا تھا۔ اس وقت میرے آپشنل سبجیکٹ اردو ادب اور سوشل ورک تھے ۔ اردو ادب میں کم مارکس آنے کی وجہ سے میں فائل ہو گئی۔ پھر میں نے آپشنل سبجیکٹ کو تبدیل کر دیا اور اینتھروپولوجی کو چنا۔ 2019 میں پھر سے امتحان دیا اور اس بار مجھے کامیابی ملی اور ریاست میں 27 ویں رینک حاصل ہوئی ۔

دوسری لڑکیوں کے لئے بنی ترغیب

ثنا کی کامیابی سے متاثر ہو کر دوسری لڑکیوں نے بھی خواب دیکھنے شروع کر دئیے ہیں۔ اس حوالے سے ثنا بتاتی ہیں کہ میرا تعلق ایک ایسے پسماندہ علاقے سے ہے جہاں تعلیم کے ذرائع محدود ہیں اور لڑکیوں کے لئے تو اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک خواب کی طرح ہے ۔ لیکن میری کامیابی نے شہر کے لوگوں کی ذہنیت کو بدلا ہے۔ ثنا کہتی ہیں کہ میری کامیابی کے بعد شہر کی بہت سی لڑکیوں نے مجھ سے ملاقات کی جو میری طرح امتحان دینا چاہتی تھیں۔ آج میری کامیابی پر پورا شہر نازاں ہے ۔

یہ ہیں ثنا کی ترجیحات

امتحان میں کامیابی کے بعد بطور افسر اپنی ترجیحات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایک ملک اور سماج کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں موجود مسائل کا سدباب کیا جائے ۔ ثنا کہتی ہیں کہ ملک اور سماج کی ترقی کے لئے میں سماج میں پھیلی کچھ برائیوں جیسے جہیز کی لعنت کو ختم کرنا چاہتی ہوں ۔ اس کے لئے میری کوشش ہوگی کہ میں خواتین کو اعلیٰ تعلیم کی جانب توجہ دلاؤں ۔

ثنا کہتی ہیں کہ میں تعلیم کے میدان میں کام کرنا زیادہ پسند کروں گی، کیونکہ تعلیم ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتی۔ خواتین، ٹرانس جینڈر اور یتیم بچوں کو سماج میں کسی نہ کسی طرح کے مسائل سے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے۔ خواتین، ٹرانس جینڈر اور یتیم آزادی کے 70 سال بعد بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ میری یہ دلی تمنا ہے کہ میں ان کے مفاد کے لئے منصوبے تشکیل دوں اور ان منصوبوں کے فوائد ان طبقات تک پہنچا سکوں ۔ میں نے مستقبل کے لئے اپنا مقصد بنایا ہے کہ میں ان تمام چیزوں کے لئے اپنی زندگی وقف کر دوں ۔

ثنا اپنے ملک کی ثقافت کی بھی دلدادہ ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ اس ملک کے لوگوں کو اس کی ثقافت نے ہی ہمیشہ متحد رکھا ہے۔ اس کی اہمیت کے بارے میں ثنا کا کہنا ہے کہ یہ  ہندوستان ہم سے بنا ہوا ہے اور ہم مخفف ہے ہندو اور مسلم کا ۔ ہم ہمیشہ سے تھے اور ہمیشہ رہیں گے ۔