حجاب کیس: فیصلہ ناقابل قبول ۔ احتجاج نہیں حکمت اہم: مسلم دانشوروں اور علما

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 16-03-2022
حجاب کیس: فیصلہ ناقابل قبول ۔ احتجاج نہیں حکمت اہم: مسلم دانشوروں اور علما
حجاب کیس: فیصلہ ناقابل قبول ۔ احتجاج نہیں حکمت اہم: مسلم دانشوروں اور علما

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی 

کرناٹک ہائی کورٹ نے منگل کو  حجاب کیس میں محفوظ فیصلہ کو سنایا تو حجاب پر عائد پابندی پر مہر لگ گئی۔ تنازعہ ایک کالج میں حجاب پر اعتراض سے شروع ہوا تھا۔جس نے طول پکڑا تو لمبی بحث چلی اور گیارہ روزہ سماعت کے بعد فیصلہ آیا ۔بہرحال اس فیصلے کو مسلمانوں کی اکثریت نے تسلیم نہیں کیا ۔مذہبی شخصیات ،ملی اداروں اور تنظیموں کے سربراہوں نے اس کو مسترد کردیا ۔ یہی نہیں اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔ مسلمانوں کی سماجی ،مذہبی اور علمی شخصیات نے اس پر سخت آرا پیش کی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا سے دارالعلوم دیو بند تک کوئی اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ 

دیو بند  کا ردعمل

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے حجاب سے متعلق کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کا یہ بیان کہ "حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے" یہ غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ پردہ اسلام میں واجب ہے اور قرآن اس کا حکم دیتا ہے۔

دارالعلوم (جو عدالتی فیصلوں کے بارے میں عام طور پر خاموش ہی رہتا ہے) نے اس معاملے پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے قومی ملی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں۔

دارالعلوم کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت کہتی ہے کہ پردہ اسلام میں لازم نہیں ہے تو اس کی تردید کی جانی چاہیے۔ کیونکہ پردہ ضروری ہے۔ اْنہوں نے کہا کہ پردہ اسلام کا حصہ ہے اور اس کا لازمی ہونا قرآن کا حکم ہے۔

مفتی نعمانی نے کہا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور کسی بھی حکومتی تسلیم شدہ تعلیمی ادارے کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ایسے قوانین بنائے جو کسی مذہب یا روایت کے خلاف ہوں۔

مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا کہ انہوں نے ابھی تک ہائی کورٹ کے فیصلے کی کاپی نہیں دیکھی، اس لیے فی الحال کوئی حتمی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن خبروں کے ذریعے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ سامنے آیا ہے، اس کے مطابق یہ فیصلہ درست نہیں ہے اور اس پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

مسلم پرسنل لا نے کہا ۔۔۔

کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے سلسلے میں جو فیصلہ دیاہے وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور شرعی حکم کے مغائر ہے،عدالت کا یہ فیصلہ دستور کی دفعہ ۱۵ کے بھی خلاف ہے جو مذہب، نسل،ذات پات اور زبان کی بنیاد پر ہر قسم کی تفریق کے خلاف ہے۔

جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ لازم ہوتے ہیں، اور ان کی خلاف ورزی گناہ ہے۔اس لحاظ سے حجاب ایک لازمی حکم ہے اگر کوئی اس حکم پر عمل نہ کرے تو وہ اسلام کے دائرے سے نہیں نکلتا ہے لیکن وہ گناہگار ہوتا ہے اس وجہ سے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حکم نہیں ہے

،ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولا نا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے اخباری بیان میں کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سے مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے شریعت کے بعض احکام میں تساہل سے کام لیتے ہیں جیسے نماز نہیں پڑھتے ہیں اور روزہ نہیں رکھتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم نہیں ہیں ، پھر یہ کہ اپنی پسند کا لباس پہننا اور اپنی مرضی کے مطابق جسم کے بعض حصے کو چھپانا اور بعض حصوں کو کھلا رکھناہر شہری کا دستوری حق ہے اس میں حکومت کی طرف سے کسی طرح کی پابندی فرد کی آزادی کو مجروح کرنے کے مترادف ہے،۔

 یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے گروہ موجود ہیں، اور بہت سے مواقع پر وہ اپنی مذہبی علامتوں کا استعمال کرتے ہیں، خود حکومت بھی بعض مذہبی فرقوں کے لیے ان کی خصوصی علامتوں کو استعمال کی اجازت دیتی ہے، یہاں تک کے ان کے لیے ہوا بازی کے قانون میں ترمیم بھی کی گئی ہے۔

ایسی صورت حال میں مسلمان طالبات کو حجاب کے استعمال سے روکنا مذہب کی بنیاد پر تفریق کی شکل قرار پائے گی ، پھر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یونیفارم مقررکرنے کا حق اسکولوں کی حد تک ہے اور جو معاملہ ہائی کورٹ گیا ہے وہ اسکولوں کا نہیں کالج کا تھا، اس لیے ضابطہ کے مطابق انتظامیہ کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں تھا، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس فیصلے پر گہرے رنج اور دکھ کا اظہار کرتا ہے اور وہ جلد ہی اس سلسلے میں مناسب قدم اٹھائے گااور آئندہ کی حکمت عملی پر غور کریگا۔

ملک اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ :: مولانا محمود  مدنی کی رائے

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ حجاب سے متعلق فیصلے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے اس کو ملک اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا ۔

انھوں نے کہا کہ اس سے مذہبی آزادی پر براہ راست اثرپڑے گا ۔مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی سماج صرف قانونی باریکیوں سے نہیں چلتا بلکہ سماجی و روایتی طور پر اس کا قابل قبول ہونا بھی ضروری ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس فیصلے کے کئی منفی اثرات مرتب ہوںگے ، بالخصوص مسلم بچیوں کی تعلیم پر اثر پڑے گا اوروہ موجودہ پیدا کردہ صورت حال میں اپنی آزادی اور اعتماد کھودیں گی۔

 ہمارے ملک کی بہت ہی قدیم روایت اور تہذیب ہے ،بالخصو ص مسلم خواتین کے عقیدے و تصور میں صدیوں سے پردہ اور حیا کی ضرورت و اہمیت ثبت ہے ، اسے صرف عدالت کے فیصلے سے مٹایا نہیں جاسکتا۔ مولانا مدنی نے اس امر پر زورد یا کہ فیصلہ جس مذہب کے بارے میں کیاجارہا ہے۔

اس کے مسلمہ عقائد ، اس مذہب کے مستند علماء و فقہا کے اعتبار سے ہونا چاہیے ، عدالتوں کو اس میں اپنی طرف سے علیحدہ راہ اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ مولانا مدنی نے ریاستی سرکاروں اور ملک کی مرکزی حکومت کو متوجہ کیا کہ وہ کسی قوم کی مسلمہ تہذیب و روایت( پرمپرا) اور عقیدے کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کریں اور اگر مسئلہ عدالت سے حل نہ ہو تو جمہوریت میں پارلیامنٹ اور اسمبلیوں کو قانون بنانے کاپوراحق ہوتاہے ۔

اس لیے قومی مفاد( راشٹر ہت )میں قانون ساز اداروں کو اقدام کرنا چاہیے ۔مولانا محمود مدنی نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ سڑکوں پر احتجاج اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کریں اور صبر وثبات کا مظاہرہ کریں ۔

  اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں :: مولانا ارشد مدنی

صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب کے سلسلہ میں دیئے گئے فیصلہ پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ کورٹ کا فیصلہ حجاب کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں ہے،۔

جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ ضروری ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے، اس لحاظ سے حجاب ایک ضروری حکم ہے، اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام سے خارج نہیں ہوتاہے، لیکن وہ گنہگارہوکر اللہ کے عذاب اور جہنم کا مستحق ہوتاہے ضرورہوتاہے، اس وجہ سے یہ کہنا پردہ اسلام کا لازمی جزنہیں ہے شرعاغلط ہے۔

یہ لوگ ضروری کامطلب یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو آدمی اس کا حکم نہیں مانے گا، وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا، حالانکہ ایسانہیں ہے، اگر واجب اورفرض ہے تو ضروری ہے اس کے نہ کرنے پر کل قیامت کے دن اللہ کے عذاب کا مستحق ہوگا، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نمازاورروزہ لازم اورضروری نہیں ہے ۔

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ یونیفارم مقررکرنے کا حق اسکولوں کی حدتک محدودہے جو معاملہ ہائی کورٹ میں زیرسماعت تھا وہ اسکول کا نہیں کالج کا تھا، اس لئے ضابطہ کے مطابق کالج کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں ہے، رہا دستوری مسئلہ تو اقلیتوں کے حقوق کے لئے دستورکے آرٹیکل 25اور اس کی ذیلی شقوں کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں، وہ دستورمیں اس بات کی ضمانت دیتاہے کہ ملک کے ہر شہری کو مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، مذہبی قوانین پر عمل کرنے اور عبادت کی مکمل آزادی ہے۔

حکومت کا اپنا کوئی سرکاری ریاستی مذہب نہیں ہے، لیکن یہ تمام شہریوں کو مکمل آزادی دیتاہے کہ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق کسی بھی مذہب پرچلیں اورعبادت کریں، مولانا مدنی نے کہا کہ سیکولرازم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی فردیاگروہ اپنی مذہبی پہچان ظاہر نہ کرے ہاں یہ بات سیکولرازم میں ضرورداخل ہے کہ حکومت کسی خاص مذہب کی پہچان کو تمام شہریوں پر مسلط نہ کرے، حجاب ایک مذہبی فریضہ ہے جس کی بنیادقرآن وسنت ہے وہی ہمارا فطری اورعقلی تقاضہ بھی ہے۔

  یہ عدالت کا کام نہیں ہے :: امیر جماعت اسلامی ہند کا بیان

 جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے کہا ہے کہ یہ عدالت کا کام نہیں ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کے ضروری اعمال اور طریقوں کے بارے میں فیصلہ کرے۔ حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جے آئی ایچ ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے متفق نہیں ہے۔

 حسینی نے کہا ’’ہم کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ کسی بھی مذہب کےضروری مذہبی طریقوں کے بارے میں فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ ’’اس فیصلے میں مطلوبہ ضروری تصحیح لائے گی اور کسی غلط ترجیح کو قائم کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

امیرِ جماعت نے کہا کہ ’’ہم میڈیا کے بعض حصوں میں غلط تاثر دینے والی ان شرارتی رپورٹنگ کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں کہ عدالت نے حجاب پر کسی قسم کی پابندی لگا دی ہے۔انھوں نے نشان دہی کی کہ ’’اس عدالتی حکم کا سماجی اور نجی زندگی میں حجاب پہننے یا نہ پہننے کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے مشورہ دیا ’’یہ (فیصلہ) سرکاری حکم نامے کی درستگی تک محدود ہے جس میں پبلک فنڈڈ اسکولوں کی انتظامیہ کو ڈریس کوڈ تجویز کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

عدالتی فیصلوں کی اس طرح کی غلط تشریح کے ذریعے شہریوں میں کسی قسم کی تفریق یا بداعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کرنا اچھا نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ جے آئی ایچ تعلیمی اداروں میں یونیفارم کے رواج کے خلاف نہیں ہے۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ پبلک فنڈ سے چلنے والے اسکولوں کو ڈریس کوڈ کا فیصلہ کرتے ہوئے متعلقہ طلبا کی مذہبی اور ثقافتی رسومات کے لیے غیر جانبداری اور احترام کو برقرار رکھنا چاہیے اور ڈریس کوڈ میں ان کے مذہبی اصولوں، ثقافتی جھکاؤ اور ان کے ضمیر کی آواز کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

امیرِ جماعت نے کہا ’’ہمیں انتہائی تشویش ہے کہ یہ حکم مسلم خواتین کو تعلیم سے دور کر سکتا ہے اور یہ ترقی کی راہ میں تمام کمیونٹیز اور سماجی گروہوں کو شامل کرنے کی حکومت کی بیان کردہ پالیسی کے خلاف ہے۔ تعلیم ایک اہم قومی ترجیح ہے اور اس کا مقصد ایک سازگار ماحول کا متقاضی ہے جہاں ہر کوئی اپنے عقیدے یا ضمیر پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیے بغیر اپنی تعلیم کو آگے بڑھا سکتا ہے۔

امیر شریعت کا ردعمل 

مذہب کی تشریح کرنا مذہب کے ماہرین کی ذمہ داری۔ امیر شریعت امیر شریعت بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ مولانا احمد ولی فیصل رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی، مونگیر نے حجاب مسئلے پر کرناٹکا ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلہ پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا کہنا کہ پردہ اسلام میں لازمی نہیں ہے یہ سراسر خلاف حقیقت ہے۔ مذہب کی تشریح کرنا مذہب کے ماہرین کا کام ہے نہ کہ عدالت کا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے لازمیت کی تحقیق  کا استعمال کرتے ہوئے حجاب کی لازمیت کو غلط تعبیر کیا ہے۔ ہم لوگ توہین عدالت نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کے احکام کی تشریح عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ مذہبی آزادی کو یقینی بنانا عدالت کی ذمہ داری ہے جبکہ مذہب کی تشریح کا عمل اس کو محدود کر دیتا ہے۔ ان دونوں کاموں کو کرنے کے نتیجہ کا لازمی نقصان یہ ہوگا کہ عدالت مذہب کی آزادی کو مکمل طور پر یقینی بنانے میں ناکام رہے گی۔

عدالت کی جانب سے مذہبی احکام میں لازمی اور غیر لازمی باتوں کا طے کرنا مذہبی آزادی پر قد غن لگانے جیسا ہے۔ عدالتیں قانونی اعتبار سے سیکولرہیں اس لیے اسے کسی مذہب کے قوانین کی تشریح کا کام نہیں کرنا چاہیے۔ مذہبی قوانین کی تشریح کا کام اس مذہب کے ماہرین کا ہے۔ٹھیک اسی طرح جیسے  آئین کی تشریح کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے۔

یکطرفہ طور پر حجاب کو دین کا غیر لازمی حصہ بتا کرپابندی کو جائز ٹھہرا دینا واضح طور پر غلط فیصلہ ہے۔ اس کی وجہ سے عدلیہ سے عوام کا اعتماد اٹھ جائےگا اور کسی ملک میں عوام کا عدلیہ سے بھروسہ اٹھ جانا اس ملک کے جمہوری نظام کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔

انہوں نے اس ضمن میں حکومت کو متوجہ کیا کہ اسکول و کالجز میں ایسا ڈریس کوڈ متعارف کرایا جائے جو علاقائی روایات اور مذہبی شعار کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہو، جس سے ہر شہری مامون و مطمئن ہو اور اسے وہ شخصی آزادی، آزادی اظہار اور رائے کے اختیارات پر پابندی لگانا نہ سمجھے۔ اس لیے ملک کے تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں قرآن اور حدیث کو خود پڑھیں اور حقوق کی آزادی سے متعلق ملک کے آئین کا مطالعہ کریں اور اپنے علاقہ کے عوامی نمائندے اور انتظامیہ تک اپنی بات کھل کر پہنچائیں اور اپنی اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کریں۔

کولکتہ کے امام عیدین  قاری الطاف الرحمان  کا کہنا ہے کہ ایسا کہنا ہے کہ  حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں بالکل غلط ہوگا ۔ یہ معلومات کی کمی ہوسکتی ہے ۔جج حضرات کو کس نے اس باریکی سے واقف نہیں کیا یا انہوں نے کس سے اس کی وضاحت کرائی سمجھ سے باہر ہے۔ مگر ایک بات واضح کروں کہ قرآن میں حجاب کے بارے میں بالکل صاف لفظوں میں آیا ہے ،جس کا ذکر سورہ نور اور سورہ احزاب میں موجود ہے۔ میرے خیال میں مسلمانوں کو ایک کے بعد ایک معاملات میں پھنسانے کی کوشش ہے۔ بہرحال قانون ہی امید ہے اور مسلمانوں کو دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے اس لڑائی کو بھی قانونی طور پر لڑنا ہوگا ۔

پروفیسر اختر الوسع کا بیان 

 ممتاز دانشور اور قدم شری پروفیسر اختر الواسع کہتے ہیں کہ ’’۔ یہ فیصلہ قرآن کے بالکل برعکس ہے ،قرآن کریم کی سورہ نور اور سورہ احزاب میں واضح طور پر پردے کے بارے میں ذکر اور وضاحت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 25 کے ساتھ بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے ۔

 پروفیسر اختر الواسع نے بہرحال کہا کہ مسلمانوں کو اس کے خلاف کوئی احتجاج یا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، اس لڑائی کو دراصل قانونی دائرے میں ہی لڑنا ہوگا ،مسلمانوں کو پر امن رہنے کے ساتھ سپریم کورٹ کا رخ کرنا ہوگا۔

دہلی کی تاریخی مسجد فتحپوری کے امام اور ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے کہا کہ کہا کہ صرف افسوس کا اظہار کرسکتا ہوں ،مگر جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس کا مقابلہ قانونی طور پر کرنا ہے لیکن ساتھ ہی ہمیں اخلاق کا دامن تھامے رہنا ہوگا جو سب سے اہم ہوتا ہے۔ یہ قانونی لڑائی ہے جمہوری اور دستوری بنیاد پر لڑی جائے گی۔

 مفتی مکرم نے کہا کہ بلاشبہ ہم انصاف کا احترام کرتے ہیں لیکن انصاف نظر بھی آنا چاہیے۔ایسا لگتا ہے کہ عدالت نے ایک سوچی سمجھی رائے لکھ دی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وکیل دفاع نے کیا دلائل اور جواز پیش کئے کو ہائی کورٹ کو مطمین نہیں کرسکے ؟

مفتی مکرم احمد نے مزید کہا کہ حجاب کوئی معمولی چیز نہیں ،زندگی کا حصہ ہے کیونکہ حجاب قرآن کریم کے ساتھ حدیث میں موجود ہے۔ پیغمبر اسلام کا حکم ہے۔ یہ ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ کا حصہ ہے ۔بہرحال میں امید کرتا ہوں کہ مسلمانوں کی نا امیدی اور پریشانی کو عدالت ہی دور کرے گی۔