اللہ کے گھرکارکھوالا’’رام‘‘

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 08-06-2021
مسجدکے محافظ رام ویرکشیپ
مسجدکے محافظ رام ویرکشیپ

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

چاہے گیتاواچیئے یا پڑھیے قرآن

تیرامیراپیار ہی ہر پستک کا گیان

ہندوستان میں فرقہ وارانہ دنگوں کی تاریخ جس قدرپرانی ہے،اس سے کہیں زیادہ قدیم ہے قومی یکجہتی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایت۔ اتحادویگانگت کے دشمنوں نے اسے توڑنے کی بہت کوششیں کیں مگرانھیں کامیابی نہیں ملی کیونکہ اس دیش میں رام ویر سنگھ کشیب جیسے لوگ موجودہیں جن کے لئےبھائی چارہ ایمان کا درجہ رکھتاہے۔ان کے اس جذبے کو2013 کے مظفرنگرفسادات بھی کم نہیں کرپائے۔رام ویربہت خاموشی سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اس روایت کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔

جب مسجدکو دنگائیوں سے بچائی

مظفرنگر دنگوں میں رام ویر کشیپ نےایک مسجد بچائی تھی اور اب تک وہ اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ یہ مسجدسواسوسال قدیم بتائی جاتی ہے۔سال 2013 کے فسادات کے دوران فسادیوں کا ایک گروپ اس کو توڑنے کے لئے آگے بڑھا تو رام ویر نے مردانگی سے اس کا سامنا کیا۔انہیں گاؤں والوں کی حمایت ملی اور مسجد بچا لی گئی۔اس کے بعد سے اب تک رام ویر اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔

گائوں میں مسلمان نہیں

وہ صبح اسے صاف کرتے ہیں، شام کو موم بتیاں جلاتے ہیں اور ہر رمضان سے پہلے رنگائی پتائی بھی کرواتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے۔ان کا کہنا ہے، ’میراوشواس مجھے عبادت کی تمام جگہوں کا احترام کرنے کے لئے بلاتا ہے۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ گاؤں میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔مظفرنگرضلع ہیڈکوارٹر سے 40 کلومیٹر دور نن ہیڈا، جاٹ اکثریتی گاؤں ہے۔یہاں کچھ دلت اور پسماندہ برادریوں کے لوگ رہتے ہیں۔رام ویر کے مطابق گاؤں میں آزادی سے پہلے بڑی تعداد میں مسلمان تھے۔آہستہ آہستہ وہ چلے گئے۔اب کبھی کبھار ہی کوئی نماز کے لئے آتا ہے۔

نفرت کو کاٹنے والی محبت

پاس کے کھیڑی فیروز آباد گاؤں میں رہنے والے خوش نصیب احمد بتاتے ہیں، میں چند سال پہلے نن ہیڈا گیا تھا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ ایک ہندو شخص مسجد کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔میں نے وہاں نماز ادا کی ہے۔انھوں نے کہا نفرت کو کاٹنے والی محبت اور امن کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ یکجہتی کی مثال رام ویر، مسجد سے صرف 100 میٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بچپن میں وہ اس کے ارد گرد کھیلتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، میرے لئے یہ عبادت کی جگہ ہے جس کا احترام ہونا چاہئے۔ اس کی دیکھ بھال کے لئے کوئی نہیں تھا، میں نے ذمہ داری لے لی ۔گزشتہ بیس سال سے میں روز اس کی صفائی کرتا ہوں اور مرمت کی طرف توجہ رکھتا ہوں۔ رمضان سے پہلے اس کی پتائی،اپنے خاندان کے ساتھ مل کر کرتاہوں۔

سیدنے تعمیرکرائی تھی مسجد

نن ہیڈا گاؤں کے پردھان دارا سنگھ، رام ویر کی کافی تعریف کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رام ویر خود کے پیسے سے رمضان سے پہلے مسجد کی پتائی کرواتے ہیں۔ صفائی کرانے میں رام ویر کا خاندان بھی ان کی مدد کرتا ہے۔ مزدور کی حیثیت سے کنبہ کی دیکھ بھال کرنے والے رامویر کشیپ کا کہنا ہے کہ یہ مسجد 135 سال پرانی ہے ، جسے رتھیدی گاؤں کے رہنے والے ایک سید نے تعمیر کرایا تھا۔ اس میں پہلے گاؤں میں رہنے والی مسلم برادری کے لوگ نماز پڑھتے تھے ، لیکن چونکہ مسلمان گاؤں چھوڑ چکے ہیں ، اس لئے مسجد میں نماز نہیں ہوتی ہے۔ رام ویر کہتے ہیں کہ بعض اوقات کوئی راہگیر مسجد میں نمازکے لئے آجا تا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ وہ ڈیرہ سچاسوداکے پیروکار ہیں۔ سالوں پہلے گائوں میں منعقدہ ایک ستسنگ سن کر وہ مسجد کی دیکھ بھال کرنے لگے تھے۔

ہم آہنگی کی مثال

شہر قاضی تنویر عالم نے کہا کہ مذہبی مقام سبھی کاہوتا ہے۔ تمام مذاہب کا احترام کرنا ہمارا کلچر اور تہذیب ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ ایک ہندو مسجد کی خدمت کر رہا ہے۔ رام ویر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال قائم کرکے بھائی چارے کو فروغ دے رہے ہیں۔ وہ تعریف کے مستحق ہیں۔ وہ ہماری گنگا جمنی تہیبیب کی زندہ مثال ہیں۔