لڑکیوں کو حق وراثت:کیا کہتی ہیں طالبات؟

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 06-05-2023
لڑکیوں کو حق وراثت:کیا کہتی ہیں طالبات؟
لڑکیوں کو حق وراثت:کیا کہتی ہیں طالبات؟

 

محمد اکرم/ نئی دہلی

دین اسلام میں وراثت کے بارے میں کھل کر کہا گیا ہے لیکن مسلم معاشرے میں حق وراثت کے بارے میں لوگوں میں بیداری کا فقدان ہے۔ وراثت، اصل میں ایسے شخص کی جائیداد کی منتقلی ہے جس کا انتقال ہوچکا ہو۔وراثت کی شکل میں متوفی کی منقولہ، غیر منقولہ جائیداد اور حقوق کی منتقلی کی جاتی ہے۔ اگر کسی نے کوئی چیز میت کے پاس امانت رکھی ہو، اسے ترکہ میں شامل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے اصل مالک کو واپس کر دیا جائے گا۔ اسلامی دستور کے مطابق وراثت میں مردوعورت دونوں ہی کا حق بنتا ہے۔ حالانکہ ہمارے معاشرے کا یہ غلط رویہ ہے کہ اگر کوئی لڑکی اپنا حق وراثت مانگ لے تو اس کے باپ وبھائی برا مان جاتے ہیں۔ ۔ وراثت کے حوالے سے ملک میں وقتاً فوقتاً آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ میراث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن پاک کی متعدد آیات میں اس کا ذکر آیا ہے۔ ایسے میں لازم ہے صنفی امتیاز کے بغیرحق وراثت تقسیم کیا جائے اور لڑکیوں کو اس محروم نہ کیا جائے۔اس سلسلے میں آوازدی وائس نے خود لڑکیوں کے خیالات جاننے کی کوشش کی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کی طالبہ ثنا خانم کا کہنا تھا کہ اسلام نے وراثت میں لڑکیوں کو حصہ دیا ہے، لیکن بھائیوں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنی بہنوں کا حق دیں، شادی کے بعد کئی بار مسائل پیدا ہوتے ہیں، شوہر کی موت ہو جائے تو امید کی جاتی ہے کہ لڑکی اپنی مرضی سے کچھ کرے گی، کسی پر انحصار نہیں کرے گی۔ اس کے لیے وراثت میں حصہ ملنا چاہیے۔

اسلام نے حق دیا ہے تو آپ کو پریشانی کیوں؟

ثنا خانم کا مستقبل اور وراثت کے حوالے سے کہنا ہے کہ بعض اوقات جب لڑکیاں اپنا حق لے لیتی ہیں تو مستقبل میں ان کے والدین کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہتے، بھائیوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، اسلام کے دیے گئے حقوق سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔

ثنا کا مزید کہنا ہے کہ اگر سرپرست، شادی سے پہلے بیٹیوں کو حقوق دے دے تو یہ بہت اچھی بات ہے، اس سے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، اپنی بل پر کھڑی ہو سکتی ہیں۔

لڑکیاں، حق وراثت سے خود کفیل ہوں گی

دوسری جانب لونی غازی آباد میں رہنے والی جامعہ کی ایک اور طالبہ حنا خان کا کہنا ہے کہ اسلام میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بیٹیوں کو ان کے حقوق دینے ہیں لیکن لوگ نہیں دیتےجو کہ تشویشناک بات ہے۔

حنا خان کا مزید کہنا ہے کہ کسی بھی لڑکی کو ہمیشہ سپورٹ  کی ضرورت ہوتی ہے، اگر اسے وراثت ملے تو وہ اس کے ساتھ کچھ کر سکتی ہے۔ سسرال جانے کے بعد کئی طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں جنہیں وہ حل کر سکتی ہے۔ اگر لڑکیاں ہر میدان میں خود کفیل ہوں تو انہیں دوسروں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔

ہم کیسے مسلمان ہیں؟

لونی غازی آباد کی رہنے والی سیما علی پوچھتی ہیں، "اگر ہم اسلام کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل نہیں کر رہے تو ہم سچے مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں؟" جس طرح بھائیوں کو حقوق ملتے ہیں اسی طرح لڑکیوں کو بھی حقوق ملنے چاہئیں۔ جو قدر لڑکوں کو ملتی ہے وہی اہمیت  لڑکیوں کو بھی ملنی چاہیے۔

لڑکوں اور لڑکیوں کو دو طریقے سے دیکھنے کے رواج سے معاشرے کو نقصان پہنچ رہا ہے، جب قرآن نے حق وراثت کی بات کی ہے تو اس میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کی ضرورت

جھارکھنڈ کے دیوگھر کے رہنے والے نسیم اختر، جو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو مضمون میں بی اے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ قرآن پاک میں میراث کے حوالے سے بہت سی آیات موجود ہیں، لیکن یہ صرف مردوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ عورتوں کے لئے بھی ہیں۔ ملک بلکہ دنیا بھر میں کہیں بھی حقیقی اسلام کی تصویر پیش نہیں کی جا رہی ہے۔ تمام مسلم تنظیموں کو لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ لڑکیوں کو مالی طور پر مضبوط بنانے والی وراثت انہیں نہ دی جائے۔

نسیم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا معاشرہ تعلیم یافتہ ہو رہا ہے لیکن ایسے مسائل پ حقیقی تعلیم یافتہ لوگ بھی بات نہیں کرتے۔ جس دن لڑکوں اور لڑکیوں کو مساوی طریقے سے دیکھنے کا رواج شروع ہو جائے گا اس دن تمام پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔