گاندھی 'نوبل' سے محروم یا 'نوبل' گاندھی سے ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-10-2021
‘یہ کیسا ’نوبل
‘یہ کیسا ’نوبل

 

 

منصور الدین فریدی : نئی دہلی 

ایوارڈ حاصل کرنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں،ایک تو وہ جنہیں ایوارڈ اپنا قد اور درجہ بلند کرنے کا موقع دیتا ہے اور دوسرے وہ جن کا انتخاب ان سے زیادہ اس ایوارڈ یا اعزاز کا وزن بڑھا دیتا ہے۔ ایسی ہی گنی چنی چند ہستیوں میں ایک نام موہن داس کرم چندگاندھی کا ہے جن کو ملک بابائے قوم مہاتما گاندھی کی حیثیت سے جانتا ہے۔

دنیا میں اپنے عدم تشدد کے فلسفے کے سبب امن کی علامت مانے جانے والے گاندھی کی زندگی میں المیوں کی کوئی کمی نہیں رہی،اگر آزادی کی لڑائی میں ملک کو غلامی سے آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کی تو تقسیم کے سبب پاکستان کی شکل میں ایک بڑا زخم ملا،وہ عدم تشدد کے پجاری رہے تو تشدد نے ہی انہیں نگل لیا۔

اسی طرح ایک المیہ یہ بھی رہاکہ امن کے پیامبر کونہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ بعد ازمرگ بھی دنیا کے سب سے بڑے اور قابل رشک ”نوبل انعام“برائے امن سے دور رکھا گیا۔حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ گاندھی جی اپنی شخصیت کا لوہا منوانے کیلئے ایسے کسی ایوارڈ کے محتاج نہیں تھے۔مگر سوال تو کئے جاتے رہیں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟

گاندھی جی کے ساتھ اس نا انصافی نے ناروے کے عظیم اور مثالی ادارے ”نوبل“ کے کردار کو مشکوک بنا نے کیساتھ نوبل کمیٹی کی ذہنی وسعت اور نظریئے پر سوالیہ نشان لگا دیئے اور یہی وجہ ہے کہ اس ناانصافی کو چھ دہائی گزر جانے کے باوجود دنیا اس المیہ کو بھلا نہیں سکی ہے۔

اس سے مزید ایک بات واضح ہوتی ہے کہ نوبل کمیٹی نے ماضی میں غیر یوروپی آزادی کی لڑائیوں کو اہمیت نہیں دی اور ساتھ ہی سیاسی اور سفارتی اثرات کو قبول کیا۔ناروے کا گاندھی جی کو انعام دینے سے گریز کرنے کا ایک اہم سبب برطانیہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بحال رکھنا تھا۔ چیلے بنے ایوارڈ کے حقدار

بہرحال اس ایوارڈ پر گاندھی جی کا کتنا حق تھا اس کا اندازہ اس لگایا جا سکتا ہے کہ ا ن کی شہادت کے بعد ان کے عدم تشدد کے اصولوں پر یقین رکھنے والوں بشمول جارج سی مارشل، جنوبی افریقہ نیشنل کانگریس کے سابق صدر البرٹ لوتھولی موجودہ صدر نیلسن منڈیلا اور امریکہ میں سیاہ فاموں کے حقوق کی جنگ لڑنے والے مارٹن لوتھر کنگ جونیر، تبت کے مذہبی پیشوا دلائی لامہ اور آنگ سان سوکی کو نوبل انعام برائے امن کا مستحق مانا گیاجو گاندھی جی کو عدم تشدد کے فلسفے کے سبب اپنا ”گرو“ مانتے تھے اور اس کا اعتراف اپنی کتابوں میں بھی کرچکے تھے۔

گاندھی جی۔ ہر با ر غیر مو ز و ں

 گاندھی جی کو نوبل انعام برائے امن کیلئے صرف 1937میں ہی نہیں بلکہ 1948,1947,1939,1938میں بھی نامزد کیا گیا تھا لیکن ہر بار ایوارڈ اور ان کے درمیان کوئی نظرفکر اور ذہنیت دیوار بن گئی۔

 یہی نہیں 1937 میں ناروے کی لیبر پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ اولی کولیبرسن نے نوبل انعام برائے امن کیلئے گاندھی جی کے نام پیش کیا تھاجبکہ اس کے بعدانہیں 13دیگر ناموں کے ساتھ حتمی فہرست میں شامل کیا گیا۔

نوبل کمیٹی کے مشیر پروفیسر جیکب ووم میولر کی گاندھی جی پررپورٹ بہت قابل اعتراض تھی جس میں انہوں نے ایک جانب گاندھی جی کو بلاشبہ ایک مجاہد آزادی،قوم پرست اور مثالی شخصیت قرار دیا تو دوسری جانب انہیں ایک معمولی سیاستداں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوبل انعام برائے امن1937 لارڈسیسل آف چیلووڈ کی جھولی گرا۔

آواز بھی اٹھی

پھر 1934میں ”کرسچن سینچری“جرنل کے اداریئے میں گاندھی جی کی وکالت میں کہا گیا تھا کہ۔”نوبل انعام برائے امن گاندھی جی کو کیوں نہ ملے؟ ایسا کہنا کوئی ذاتی حمایت یاجانبداری نہیں اور نہ ہی وہ ایساچاہتے ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس انعام سے ان کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور وہ بھاری رقم ”دان“ کرنے سوا اور کچھ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

قابل اعتراض رپورٹ

 اس کے بعد 1938اور1939میں بھی گاندھی جی کو اس انعام کیلئے نامزد کیا گیا لیکن ہر بار معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ثابت ہوا۔ اس کے 10سال کے بعدگاندھی جی کو نوبل انعام برائے امن کی چھ رکنی فیصلہ کن فہرست میں شامل ہونے کا موقع1947میں ملا۔ نامزد کرنے والے ممبئی کے وزیراعظم بی جی کھیر، متحدہ صوبہ کے وزیراعظم گوبند بلبھ پنت اور انڈین لیجسلیٹیو اسمبلی کے صدر ماولنکر تھے۔

آخری رپورٹ اور قتل

نوبل کمیٹی کے مشیر اور ممتاز تاریخ داں جینس سیپ نے ایک نئی رپورٹ تیار کی جس میں 1937سے1947کے دوران ہندوستانی سیاست میں گاندھی جی کے کردار پر روشنی ڈالی گئی تھی،جس دوران گاندھی جی کی قیادت میں عظیم ترین کامیابی کی شکل میں آزادی اور ملک کی تقسیم کی شکل میں بدترین ناکامی حاصل ہوئی تھی۔

رپورٹ میں آزادی سے قبل آخری دہائی میں تین مختلف صو رتحال،جن میں ہندوستانیوں اور برطانیہ کا ٹکراؤ،دوسری جنگ عظیم میں ہندوستان کی شمولیت اور ہندو۔مسلم ٹکراؤ کا جائزہ لیا گیا تھا۔ بہرحال اس رپورٹ میں میولر کی دس سال پرانی رپورٹ کی طرح گاندھی جی قد چھوٹا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی لیکن المیہ یہ رہا کہ نوبل انعام برائے امن 1947کیلئے نامزدگی کی آخری تاریخ سے دو دن قبل30جنوری کو گاندھی جی کو قتل کردیا گیا۔

بعداز مرگ انعام“ کے مستحق بھی نہیں

 گاندھی جی کی ہلاکت کے تین ماہ بعد اخبار ”دی ہندو“ نے ایک خبر شائع کی کہ ”گاندھی جی کو بعداز مرگ نوبل انعام برائے امن دیئے جانے کا امکان“۔ اس وقت نوبل انعام با حیات شخصیات کو دینے کی ہی روایت تھی۔نوبل کمیٹی کے آرٹیکل کے تحت بعدازمرگ انعام اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب نامزدگی کے دوران یا اس کی تاریخ گزر جانے کے بعد کسی امیدوار کی موت ہوجائے۔

 جواز اور دلیل بھی سنئیے 

اس کے باوجود گاندھی جی کو اس نوبل انعام کی فہرست سے باہر رکھا گیااور اس کیلئے جو دلیل پیش کی گئی وہ بھی بڑی”نوبل“ تھی کیونکہ کمیٹی کا کہنا تھا کہ چونکہ گاندھی جی کا تعلق کسی تنظیم یا ادارے سے نہیں تھا ،نہ ہی انہوں نہ کوئی املاک چھوڑی، نہ ہی ان کی کوئی وصیت تھی،اس لئے انہیں انعام دینا ممکن نہیں کیونکہ مسئلہ یہ ہوگا کہ اس کی رقم کون وصول کرے گا۔ ان تمام دلائل اور دفاع کی بنیاد پر گاندھی جی کو ”بعدازمرگ“ بھی انصاف سے محروم رکھا گیا۔

ڈائری کی بات

 اس وقت نوبل کمیٹی کے چیئرمین گنیر جان نے کی ڈائری میں 18نومبر1948کمے کالم میں درج تھا کہ ”گاندھی بعداز مرگ انعام“ کے مستحق نظر آرہے تھے لیکن لیبر پارٹی کے لیڈران مارٹن ٹرنمائل اور وزیر خارجہ برگر بریڈ لینڈ کیساتھ تین ممبران کی مخالفت نے انہیں انعام سے محروم رکھنے میں اہم کردار رکھااور ساتھ ہی کمیٹی کو 1948کیلئے کوئی مستحق امیدوار نہ ہونے کا اعلان کرناپڑا۔ایک طرح سے ناروے نے یوروپی اجار ہ داری اور برطانوی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیکے لیکن اس سال کا ایوارڈ”ریزرو‘’یا محفوظ کردیا ہے جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال کمیٹی نوبل انعام برائے امن کیلئے گاندھی جی سے بہتر کسی اور کو نہیں سمجھا اسی لئے انعام کو ”ریزرو“ کردیا گیا۔

آخر کیوں ہو ایسا؟

گاندھی جی کو نوبل انعام برائے امن نہ دیئے جانے کے پیچھے کئی اسباب تھے،اول تو ناروے نوبل کمیٹی پر یوروپ کا غلبہ اور دوسرا برطانیہ کا سیاسی دباؤ۔دراصل1960تک نوبل انعام یوروپی اور امریکی شخصیات کیلئے ہی مخصوص تھااس وقت تک نوبل کمیٹی کی تنگ نظری کیلئے ہی جانا جاتا تھا لیکن 1960کے نوبل انعام برائے امن کیلئے افریقن نیشنل کانگریس کے سابق صدر البرٹ جان لوتھولی کو چنا گیا جنہوں نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف زبردست جدوجہد کی قیادت کی تھی،عالمی برادری نے اس کو ناروے کی نوبل کمیٹی کی مغربی تہذیب کی حدود سے باہر امن کے پیامبر کی پہلی کامیاب تلاش اور جو روایت شکن ایوارڈمانا۔1961میں سوئڈن کے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری ڈیگ ہمراسکولڈ کو نہ صرف امن کا پیامبر مانا بلکہ تاریخ کا پہلا ”بعداز مرگ“ انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ جس کیلئے متعدد تیکنکی جواز پیش کئے گئے تھے۔ بہرحال گاندھی جی کے معاملے میں نوبل کمیٹی کوئی ایسا فیصلہ کرنے میں ناکام رہی جو انہیں جائز حق دلا سکتا۔

چورا چوری واقعہ کو بنایا رکاوٹ

برطانیہ نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران گاندھی جی کی عدم تعاون تحریکوں کی تشہیر کی جن کے دوران تشدد نے جنم لیا اس کیلئے 1920-21میں پنجاب کے چورا چوری میں ہوئے پرتشدد واقعہ کو پیش کیا گیا جس میں ایک ہجوم نے پولیس اسٹیشن کو آگ لگا کر کئی پولیس والوں کوزندہ جلا دیا تھا۔

گاندھی جی کے خلاف جنوبی افریقہ کے تعلق سے غیر ہندوستانیوں کی جانب سے ایک شکایت کا ذکر نوبل کمیٹی کے مشیر پروفیسر میولر نے اپنی رپورٹ میں کچھ اس طرح کہا تھا کہ۔”یہ حقیقت ہے کہ جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کی جدوجہد صرف ہندوستانیوں کیلئے تھی اس کا ملک کے ان ہزاروں سیاہ فاموں سے کوئی تعلق نہیں تھا جو اس دوران بدترین حالات میں زندگی گزار رہے تھے‘’۔

حقیقت یہ بھی ہے کہ گاندھی جی کو نوبل انعام کیلئے برطانیہ کی مخالفت کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے لیکن یہ کھلا راز ہے کہ ونسٹن چرچل کے داماد انتھونی ایڈن نے اس کو رکوانے کیلئے ”اوور ٹائم“ کام کیا تھا کیونکہ برطانوی سامراج کیلئے یہ قابل برداشت نہیں تھا کہ نسل پرستی کے بعد ہندوستان میں آزادی کی لڑائی لڑنے والے کو نوبل انعام کا مستحق قرار دیکر اس تحریک میں مزید روح بخشی جائے،اس لئے برطانیہ نے ہر سطح سیاسی اور سفارتی محاذآرائی کی۔

awazurdu

 احساس ملامت نے جھکا دیا

وقت کے ساتھ سیاسی تبدیلیوں اورمجبوریوں نے بڑی طاقتوں کو کس طرح جھکا دیا اس کا ثبوت یہ ہے کہ 2001میں نوبل انعام کے سو سالہ جشن کے موقع پر شکاگو میں منعقدہ کنونشن میں متعدد مقررین نے نوبل انعام کیلئے گاندھی جی کو نظر انداز کئے جانے کو موضوع بنایا۔اس موقع پر نوبل کمیٹی کی جانب سے جاری ہونے والے لفافوں پر مختلف انعام یافتگان کے ساتھ گاندھی جی ایک فوٹو بھی تھا جس پر کمیٹی کے 1990سے ابتک سکریٹری کے عہدے پر فائز رہنے والے گیر لینڈاسٹٹ کے یہ جملے درج تھے کہ۔ ”ایک نوبل انعام۔۔ جو گاندھی کو نہ دیا جا سکا“۔

یہاں تک کہ اس وقت نوبل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر اگست چاؤ نے اپنے جائزے میں اس بات کا اعتراف کچھ اس طرح کیا تھا کہ۔ ”نوبل انعام کے بارے میں ہمیشہ ایک غیر معمولی اعتراض یہ رہا ہے کہ انعام نامزدگان میں سے صحیح مستحق کو نہ مل سکا لیکن اگر ہم ان اعتراضات کی فہرست پر نظر ڈالیں تو ایک ہی نام کی شکایت حق بجانب نظر آتی ہے جو مہاتما گاندھی کا ہے“۔

نوبل کے بعد جھکا برطانیہ

گاندھی جی کی شہادت کے بعد بھی ان کو نوبل انعام کی در پردہ محالفت کرنے والی طاقت برطانیہ نے 1969ان کے صد سالہ جشن پر ڈبل سائز کا ڈاک ٹکٹ جاری کرکے ان کے عدم تشدد کے اصولوں کو سلام کیا تھا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اب برطانیہ کی پارلیمنٹ کے سامنے مہاتما گاندھی کا مجسمہ دنیا کو بتا رہا ہے کہ جسمانی طور پر انتہائی کمزور نظر آنے والے گاندھی کے نظریات اور اصولوں میں کتنی طاقت تھی کہ ایک دن برطانیہ نے خود لندن میں ان کا مجسمہ نصب کیا۔

 یہی نہیں 1989میں جب تبتً کے روحانی پیشوا دلائی لاما کو نوبل انعام برائے امن سے نوازہ گیا تو گاندھی جی کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی ”تلافی“ کا اعتراف کمیٹی کے چئیر مین نے کچھ اس طرح کیا تھا کہ۔ ”یہ مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی یادوں کو ایک خراج عقیدت ہے۔

بہرحال نوبل کمیٹی نے گاندھی جی کو نوبل انعام نہ دیئے جانے پر قیاس آرائیوں اور چہ مگوئیوں کی وضاحت کرنے کی کوشش نہیں کی،یہی نوبل کمیٹی کی جھینپ ہے جو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ انعام کے بنیادی مقاصد کے برخلاف گاندھی جی کو نظر انداز کرکے نوبل کمیٹی نے اپنا ہی وقار اور رتبہّ گھٹایا ہے۔

awazurdu

لندن کے پارلیمنٹ  اسکوائر میں نصب گاندھی جی کا مجسحمہ