نئی دہلی: جموں و کشمیر، گوا، بہار اور میگھالیہ کے گورنر رہ چکے ستیہ پال ملک کا 5 اگست 2025، منگل کو انتقال ہو گیا۔ وہ کئی دنوں سے اسپتال میں زیر علاج تھے اور ان کا علاج چل رہا تھا۔ ستیہ پال ملک نے دہلی کے رام منوہر لوہیا اسپتال میں اپنی آخری سانس لی۔ ستیہ پال ملک کے ذاتی سیکریٹری کے ایس رانا نے یہ معلومات فراہم کی۔ ستیہ پال ملک کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر ان کے انتقال کی اطلاع دی گئی۔
ستیہ پال ملک بہار کے بھی گورنر رہ چکے تھے۔ سرکاری معلومات کے مطابق ستی پال ملک کو گردوں کی بیماری تھی۔ انہوں نے کسان تحریک، بدعنوانی اور کئی قومی مسائل پر اپنی بے باک رائے کے لیے شہرت حاصل کی تھی۔ یاد رہے کہ جب جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو ختم کیا گیا، تو اس وقت ستی پال ملک ہی گورنر تھے۔ جب جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کے بجائے مرکزی زیر انتظام علاقہ (یونین ٹیریٹری) میں تبدیل کیا گیا، تو ستی پال ملک مرکز کے زیر انتظام علاقے کے لیفٹیننٹ گورنر بن گئے تھے۔
ستیہ پال ملک کے انتقال پر جے ڈی یو کے رہنما کے سی تیاگی نے کہا، یہ میرے لیے ذاتی نقصان ہے۔ جب ہم دونوں کا سیاسی سفر شروع ہوا تھا تو وہ میرے ساتھ تھے۔ دونوں نے چودھری چندر شیکھر سنگھ کی قیادت والے لوک دَل میں طویل عرصے تک ایک ساتھ کام کیا۔ بعد میں وی پی سنگھ کی حکومت میں ہم دونوں ممبر پارلیمنٹ بنے۔ ان کے جانے سے مغربی یوپی کی بہت مضبوط آواز بند ہو گئی ہے۔
पूर्व गवर्नर चौधरी सत्यपाल सिंह मलिक जी नहीं रहें।#satyapalmalik
— Satyapal Malik (@SatyapalMalik6) August 5, 2025
ستیہ پال ملک 24 جولائی 1946 کو یوپی کے باغپت میں پیدا ہوئے۔ ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز 1974 سے ہوا۔ وہ اسمبلی کے رکن رہے۔ اس کے بعد 1980 سے 1986 اور پھر 1986 سے 1989 تک وہ یوپی سے راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ ستیہ پال ملک ایک ممتاز سیاستدان اور سابق گورنر تھے جنہوں نے ہندوستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی سیاسی زندگی کا سفر ایک طویل اور متحرک رہا، جس میں انھوں نے کئی اہم عہدوں پر کام کیا اور مختلف ریاستوں میں گورنر کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔
ان کا سیاسی کیریئر نہ صرف ریاستی سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی نمایاں رہا۔ ستیہ پال ملک 24 جولائی 1946 کو یوپی کے باغپت ضلع میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے سیاست میں قدم رکھا اور 1970 کی دہائی میں ان کا سیاسی سفر شروع ہوا۔ ان کی سیاست کا آغاز کسانوں اور عام لوگوں کے حقوق کے لیے کام کرنے سے ہوا۔ وہ کسانوں کے مسائل کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور ان کے لیے آواز اٹھاتے تھے، جو بعد میں ان کے سیاسی نظریات کا حصہ بن گیا۔
ستیہ پال ملک نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز لوک دَل سے کیا، جو اس وقت چودھری چرن سنگھ کی قیادت میں تھا۔ 1974 میں جب بھارت میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، اس کے خلاف بھرپور تحریک چلائی گئی، اور ستیہ پال ملک اس تحریک کا حصہ بنے۔ وہ ایمرجنسی کے دوران کئی بار جیل بھی گئے، جس سے ان کی سیاسی ساکھ میں مزید اضافہ ہوا۔ ان کا تعلق کسانوں کی جماعت سے تھا اور وہ ہمیشہ کسانوں کے مسائل پر آواز بلند کرتے رہے۔
ستیہ پال ملک نے 1980 کی دہائی میں اتر پردیش سے اپنی سیاست کو مزید مضبوط کیا۔ 1980 میں انھیں اُتر پردیش کی ریاستی اسمبلی میں منتخب ہونے کا موقع ملا، جہاں انھوں نے کسانوں کے حقوق، تعلیم، صحت اور دیگر سماجی مسائل پر زور دیا۔ انھیں عوامی سطح پر ایک ایماندار اور پختہ رہنما کے طور پر جانا جانے لگا۔ ستیہ پال ملک نے اپنی سیاسی زندگی کا اگلا بڑا قدم 1980 میں اُتر پردیش سے راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) میں منتخب ہونے کی صورت میں اٹھایا۔
انھوں نے 1980 سے 1986 تک راجیہ سبھا کے رکن کے طور پر کام کیا، جہاں انھوں نے مختلف عوامی مسائل پر آواز اٹھائی اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ 1986 سے 1989 تک بھی وہ راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ راجیہ سبھا میں ان کی موجودگی نے انھیں ایک قومی سطح کے سیاستدان کے طور پر تسلیم کرایا۔ ستیہ پال ملک کا سب سے اہم اور طویل عرصے تک کیا جانے والا کام گورنر کے طور پر رہا۔
انھوں نے کئی ریاستوں میں گورنر کے طور پر اپنی خدمات دی، جن میں جموں و کشمیر، گوا، بہار اور میگھالیہ شامل ہیں۔ ان کا گورنر بننے کا سفر 2017 میں شروع ہوا، جب انھیں گورنر کے طور پر جموں و کشمیر میں تعینات کیا گیا۔ ستیہ پال ملک کا گورنر بننے کا سب سے یادگار لمحہ 2018 میں آیا، جب انھیں جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد گورنر کے طور پر تعینات کیا گیا۔ 2019 میں جب جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ (یونین ٹیریٹری) میں تبدیل کیا گیا، تو ستیہ پال ملک نے اس نئے انتظامی نظام کی نگرانی کی۔
اس دوران انھوں نے جموں و کشمیر کی سیاست اور انتظامیہ میں کئی تبدیلیاں کیں، اور ان کی اس قیادت کو سراہا گیا۔ ستیہ پال ملک نے گوا، بہار اور میگھالیہ جیسے ریاستوں میں بھی گورنر کی حیثیت سے اپنی خدمات دی۔ ان ریاستوں میں انھوں نے انتظامیہ کی بہتری کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ گورنر کی حیثیت سے ان کی سب سے بڑی کامیابیوں میں گورننس کے عمل میں شفافیت لانا اور حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا شامل تھا۔
ستیہ پال ملک ہمیشہ کسانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے رہنما رہے۔ وہ کسانوں کے مسائل کو سیاسی محاذ پر لے کر آئے اور انھیں حل کرنے کے لیے حکومتوں کو جوابدہ بنایا۔ انھوں نے نہ صرف کسانوں کی مشکلات کو اجاگر کیا، بلکہ ان کے حقوق کے لیے کئی احتجاجات بھی کیے۔ اس کے علاوہ، وہ بدعنوانی کے خلاف بھی ایک مضبوط آواز بن کر اُبھرے اور حکومت کی پالیسیوں کی تنقید کرتے ہوئے انھیں بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہے۔