فروغِ اردو کے لیے ماضی پرستانہ رویے کے بجائے مستقبل پسندانہ اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت: دانشوران

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 28-10-2025
فروغِ اردو کے لیے ماضی پرستانہ رویے کے بجائے مستقبل پسندانہ اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت: دانشوران
فروغِ اردو کے لیے ماضی پرستانہ رویے کے بجائے مستقبل پسندانہ اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت: دانشوران

 



 نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کی جانب سے 6 سے 8 فروری 2026 کو منعقد ہونے والی ورلڈ اردو کانفرنس کے سلسلے میں تشکیل دی گئی ایڈوائزری کمیٹی کی میٹنگ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں منعقد ہوئی۔ اس اجلاس میں کانفرنس کے خدوخال، مقاصد اور موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔

کونسل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے شرکاء کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک ہے، جہاں اردو زبان و تہذیب کو نمایاں مقام حاصل ہے اور حکومت کی سطح پر اس کی مکمل سرپرستی بھی موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قومی اردو کونسل گزشتہ بارہ برسوں سے عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کر رہی ہے، اور اس بار کوشش ہے کہ کانفرنس اپنے موضوع کے لحاظ سے زیادہ ہمہ گیر ہو تاکہ اردو کی تکثیری، شمولیتی اور ہندوستانی شناخت کو مزید نمایاں کیا جا سکے۔ اسی لیے اس بار کانفرنس کا موضوع "کثیر لسانی ہندوستان میں اردو زبان و تہذیب" رکھا گیا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس کانفرنس میں اردو اور دیگر ہندوستانی و عالمی زبانوں کے باہمی اثرات، میل جول اور لین دین کی روایت پر سنجیدہ گفتگو ہوگی، جس سے اردو کے فروغ کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جا سکے گا۔

نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا کے ڈائریکٹر یوراج ملک نے کہا کہ اردو ایک شیریں اور تاریخی زبان ہے، لیکن آج کے دور میں اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اردو کے اعلیٰ ادب کو دیگر زبانوں میں ترجمہ کر کے غیر اردو داں طبقے تک پہنچایا جائے، اور اس کانفرنس میں ان زبانوں کے ماہرین کو بھی شامل کیا جائے جن کا اردو سے قریبی تعلق ہے۔

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر عین الحسن نے کہا کہ اس کانفرنس میں فارسی، عربی، ہندی اور دیگر زبانوں کے دانشوروں کو بھی مدعو کیا جانا چاہیے، کیونکہ اردو نے ان تمام زبانوں سے اثر قبول کیا ہے اور خود بھی ان پر اثر ڈالا ہے۔

بین المذاہب ہم آہنگی فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے کہا کہ اردو پیدائشی طور پر ایک شمولیتی زبان ہے، لہٰذا اس کے بارے میں پھیلائے گئے غلط تصورات سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ کانفرنس کے مقالات ماضی پر مبنی ہونے کے بجائے حال اور مستقبل کے چیلنجوں اور امکانات پر مرکوز ہوں۔

پروفیسر امتیاز حسنین (مولانا آزاد چیئر، مانو) نے کہا کہ کانفرنس میں اردو کے تعلقات ہندوستان کی شیڈولڈ، علاقائی اور قبائلی زبانوں سے بھی زیر بحث آنے چاہئیں، تبھی اس کے مقاصد مکمل ہوں گے۔ پروفیسر مظفر علی شہ میری (سابق وائس چانسلر، ڈاکٹر عبدالحق یونیورسٹی، کرنول) نے تجویز دی کہ اردو میں عالمی و قومی زبانوں کے تراجم پر ایک خصوصی سیشن رکھا جائے، تاکہ اب تک ہونے والے تراجم کی اہمیت اور اثرات واضح ہو سکیں۔

سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے ڈاکٹر مشتاق لون نے کہا کہ اردو کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اسے نئی نسل، خصوصاً Gen Z میں کس طرح منتقل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو کو مستقبل کی تعلیمی و علمی ضرورتوں سے ہم آہنگ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر مشتاق عالم قادری نے کہا کہ کانفرنس میں ایسے موضوعات شامل کیے جائیں جو اردو اور دیگر ہندوستانی زبانوں کے باہمی روابط کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیں۔ پروفیسر قطب الدین (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) نے عرب دنیا میں اردو کی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کئی عرب جامعات میں اردو کے شعبے قائم ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ کانفرنس میں اردو کے عالمی رشتوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اسے گھر گھر پہنچانے کا ہدف بھی رکھا جائے۔

میٹنگ کا اختتام ڈاکٹر شمس اقبال کے شکریہ کے کلمات پر ہوا۔