آہ!معروف شاعر و افسانہ نگارڈاکٹر فیاض رفعت

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 11-02-2022
معروف شاعر و افسانہ نگارڈاکٹر فیاض رفعت کا انتقال
معروف شاعر و افسانہ نگارڈاکٹر فیاض رفعت کا انتقال

 



 

 

آہ!ندیم صدیقی،ممبئی

 اُردو کے ممتاز افسانہ نگار ، دور درشن(پٹنہ) کےسابق ڈائریکٹرڈاکٹر فیاض رفعت 8 فروری 2022 کو ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں انتقال کر گئے۔ بوقت انتقال ان کی عمر 82 سال تھی۔

فیاض محمد خاں جو ادبی دُنیا میں فیاض رفعت کے نام سے معروف و مشہور ہوئے 11 نومبر1940 میں ’دلیل نگر‘(ضلع اٹاوہ۔ اتر پردیش) میں پیدا ہوئے تھے۔

انھوں نے علیگڑھ کے گورنمنٹ اسکول سے ’ہائی اسکول‘ کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور پھر سیاسیات میں آگرہ یونی ورسٹی اور ادبیات میں دِلّی یونی ورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کی اسناد حاصل کیں۔

فیاض رفعت نے کئی پروفیشنل کورس بھی کیے جس میں پرسنل مینجمنٹ، مینجمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریشن ، بیسک ٹی ۔ وی۔ پروڈکشن کورس وغیرہ بھی شامل ہیں۔

 مشہور سینئر شاعر فصیح اکمل نے دہلی سے فیاض رفعت کی سناونی دیتے ہوئے بتایا کہ’’ فیاض رفعت سے نصف صدی کی میری دوستی تھی، اِس وقت وہ زمانہ بے طرح یاد آتا ہے کہ جب وہ دہلی میں بے ترتیب زندگی کے شب و روز میں مست تھے اور اسی دوران عنوان چشتی نے مطلع کیا کہ کشمیر ریڈیو پر ایک اسامی ہے۔

میں نے فیاض رفعت کو ٹھیل کر کشمیر روانہ کیا اور بہَ حسن ِتقدیر ریڈیو پر اُن کی تقرری ہوگئی ۔اس طرح فیاض رفعت نے اپنی عملی زندگی ریڈیو پر صدا کاری سے شروع کی، وہ ترقی کرتے ہوئے (ٹیلی ویژن) دور درشن تک پہنچے، اور دور درشن (پٹنہ) ہی کے اسٹیشن ڈائریکٹر جیسے باوقار عہدے سے(2000 میں) سبکدوش ہوئے۔‘‘

فیاض رفعت نے ایک مدت دہلی کے مشہور اُردو اشاعتی ادارے ’’شمع‘‘ سے شائع ہونے والے ہندی جریدے ’’سشما‘‘ کی ادارت بھی کی نیز علیگڑھ سے پرکاشِت ہونے والے ہندی ہفتہ وار ’’پراودا‘‘ اور مارچ آف دی نیشن (دہلی) سے بھی اُن کی وابستگی رہی۔

فیاض رفعت کا نام اور ان کا فن پارہ ہم نے پہلی بار ڈاکٹر ظ انصاری کے مشہورِ زمانہ جریدے ’’آئینہ‘‘ (غالباً1962) میں پڑھا تھا۔

ان کی ایک درجن سے زائد کتابیں جو فکشن، شاعری وغیرہ سے متعلق ہیں ، شائع ہو چکی ہیں۔1975میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’نئے عہد کی سوغات‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا،میرے حصے کا زہر(افسانے)، بیتی رُتوں کا منظر نامہ، (نثری نظمیں) بھی ان کی کتابوں کےنام ہیں ’بنارس والی گلی‘‘ ان کاسوانحی ناول ہے۔

مرحوم اچھا خاصا تنقیدی مزاج رکھتے تھے۔ ’فن و تنقید‘ اور ’اُردو افسانے کا پس منظر‘ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں۔

فیاض رفعت نے ایک طویل مدت ممبئی کے آل انڈیا ریڈیو پر بھی کام کیا جس کے سبب وہ ممبئی کے ادبی حلقوں میں نہ صرف معروف بلکہ ایک ممتاز تشخص کے حامل قلم کار تھے ممبئی کے لکھنے پڑھنے والوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اُن سے ناواقف ہو۔ مرحوم کو مختلف اکادیمی ایوارڈز بھی تفویض کیے گئے۔

لکھنؤ میں فیاض رفعت سے (27فروری2015کو) ہماری آخری ملاقات محترم حفیظ نعمانی(مرحوم) کی کتاب کی تقریبِ اجرا میں ہوئی تھی تادیر وہ ممبئی کے اہلِ ادب کو نام بنام یاد کرتے رہے اور اپنے تنقیدی مضامین کا مجموعہ’’ اُردو افسانے کا پس منظر‘‘ بھی انہوں نے راقم السطور کو دِیا تھا۔

فیاض رفعت ایک مدت سے لکھنؤ میں مقیم تھے اور وہیں اُنہوں نے آخری سانس لی۔ وہ سرطان جیسے مہلک مرض میں مبتلا تھے۔

اُن کے جسدِ خاکی کو کل ( بدھ کی) دوپہر دادا میاں (لکھنؤ) کے قبرستان میں سپرد ِِلحد کیا جائے گا۔ اُن کے پسماندگان میں بیوہ فیروزہ خان اور بیٹا فہد خان شامل ہیں۔

واضح رہے کہ محترمہ فیروزہ خان کا نام ممبئی کے پرانے اُردو والوں میں انجانا نہیں ،یہ محترمہ (سکریٹریٹ) منترالیہ (ممبئی)میں ایک اہم پر فائز تھیں بلکہ مہاراشٹر گورنمنٹ کے مشہور اُردو جریدے’’ قومی راج‘‘ کی انہوں نے ایک مدت ادارت بھی کی۔