امتحان زندگی کا ایک فطری حصہ ہے: مودی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 01-04-2022
  امتحان زندگی کا ایک فطری حصہ ہے: مودی
امتحان زندگی کا ایک فطری حصہ ہے: مودی

 


آواز دی وائس، نئی دہلی

پریکشا پہ چرچا(پی پی سی) کے 5ویں ایڈیشن میں، وزیر اعظم نریندر مودی نے آج نئی دہلی کے تالکٹورہ اسٹیڈیم میں طلباء، اساتذہ اور والدین سے بات چیت کی۔ انہوں نے بات چیت سے قبل پنڈال میں نمائش میں رکھے گئے طلباء کے فنی کارناموں کی نمائش کا معائنہ کیا۔

مرکزی وزراء دھرمیندر پردھان، محترمہ اناپورنا دیوی، ڈاکٹر سبھاس سرکار، ڈاکٹرراج کمار رنجن سنگھ ، اور  راجیو چندر شیکھر کے ساتھ ساتھ گورنروں اور وزرائے اعلیٰ، اساتذہ، طلباء اور والدین اس موقع پر موجود تھے۔ وزیر اعظم نے پوری بات چیت کے دوران ایک متعامل، خوشگوار اور گفتگو والا لہجہ برقرار رکھا۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے گزشتہ سال ورچوئل بات چیت کے بعد اپنے نوجوان دوستوں سے خطاب کرنے پر خوشی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ پی پی سی ان کا پسندیدہ پروگرام ہے۔ انہوں نے کل وکرم سموت نئے سال کے آغاز کا ذکر کیا اور طلباء کو آنے والے بہت سے تہواروں کے لئے بھی مبارکباد دی۔

وزیر اعظم نے پی پی سی کے 5ویں ایڈیشن میں ایک نیا طریقہ متعارف کرایا۔ انہوں نے کہا کہ جو سوالات ان کے ذریعہ نہیں اٹھائے جاسکتے تھے ان کا جواب نمو ایپ پر ویڈیو، آڈیو یا ٹیکسٹ میسج کے ذریعے دیا جائے گا۔ پہلا سوال دہلی کی خوشی جین کی طرف سے آیا۔ بلاسپور، چھتیس گڑھ سے، وڈودرا کے کنی پٹیل نے بھی امتحانات سے متعلق تناؤ اور دباؤ کے بارے میں پوچھا۔ وزیر اعظم نے ان سے کہا کہ وہ تناؤ کا شکار نہ ہوں کیونکہ یہ ان کا پہلا امتحان نہیں ہے۔انہوں نے کہا ‘‘ایک طرح سے آپ امتحان کے اثرات سے محفوظ ہیں’’، ۔ پچھلے امتحانات سے انہیں جو تجربہ حاصل ہوا وہ آئندہ امتحانات پر قابو پانے میں ان کی مدد کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ مطالعہ کا کچھ حصہ چھوٹ سکتا ہے لیکن ان سے کہا کہ اس پر زور نہ دیا جائے۔

 

انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی تیاری کی مضبوطی پر توجہ مرکوز کریں اور اپنے روزمرہ کے معمولات میں پر سکون اور اعتدال کے ساتھ رہیں۔ دوسروں کی تقلید کے طور پر کچھ کرنے کی کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن اپنے معمولات پر عمل پیرا ہو اور ایک خوشگوار اور پرسکون انداز میں کام کریں۔ اگلا سوال میسور، کرناٹک کے ترون کی طرف سے آیا۔ اس نے پوچھا کہ یوٹیوب وغیرہ جیسے بہت سے توجہ بھٹکانے والے آن لائن پروگراموں کے باوجود مطالعہ کے آن لائن موڈ کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔ دہلی کے شاہد علی، ترواننت پورم، کیرالہ کے کیرتانہ اور تمل ناڈو کے کرشنا گری کے ایک استاد چندرچودیشورن کے ذہن میں بھی یہی سوال تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مسئلہ آن لائن یا آف لائن مطالعہ کے طریقوں کا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ مطالعہ کے آف لائن موڈ میں، دماغ بہت مشغول ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا ‘‘یہ میڈیم نہیں بلکہ یہ دماغ ہی ہے جو خود ایک مسئلہ بنا ہوا ہے’’، ۔ انہوں نے کہا کہ چاہے آن لائن ہو یا آف لائن جب ذہن مطالعہ میں ہوتا ہے، خلفشار طلباء کو پریشان نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی ترقی کرے گی اور طلباء کو تعلیم میں نئی ​​ٹیکنالوجیز کو اپنانا چاہیے۔ سیکھنے کے نئے طریقوں کو ایک موقع کے طور پر لینا چاہیے، نہ کہ ایک چیلنج کے طور پر۔ آن لائن تعلیم آپ کی آف لائن تعلیم کو بڑھاوا دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آن لائن مواد جمع کرنے کے لیے ہے اور آف لائن اس کی دیکھ بھال کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہے۔ انہوں نے ڈوسا تیار کرنے کی مثال دی۔ کوئی بھی ڈوسا آن لائن بنانا سیکھ سکتا ہے لیکن تیاری اور استعمال آف لائن ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ورچوئل دنیا میں رہنے کے مقابلے میں اپنے بارے میں سوچنے اور اپنی ذات کے ساتھ رہنے میں بہت زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔ پانی پت، ہریانہ کی ایک ٹیچر سمن رانی نے پوچھا کہ نئی تعلیمی پالیسی کی دفعات کس طرح طالب علموں کی زندگیوں کو بالخصوص اور معاشرے کو بااختیار بنائے گی، اور یہ نئے بھارت کے لیے کیسے راہ ہموار کرے گی۔ مشرقی خاصی ہلز ، میگھالیہ کی شیلا نے بھی اسی طرح کا سوال کیا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ ’قومی‘ تعلیمی پالیسی ہے نہ کہ ’نئی‘ تعلیمی پالیسی۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کافی غور و خوض کے بعد تیار کی گئی ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہوگا۔ "قومی تعلیمی پالیسی کے لیے مشاورت کافی وسیع اور محنت طلب رہی ہے۔ اس پر ہندوستان بھر کے لوگوں سے مشورہ کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہاکہ، یہ پالیسی حکومت نے نہیں بلکہ شہریوں، طلباء اور اس کے اساتذہ نے ملک کی ترقی کے لیے بنائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے فزیکل تعلیم و تربیت غیر نصابی سرگرمیاں تھیں۔ لیکن اب انہیں تعلیم کا حصہ بنا کر نیا وقار بخشہ جار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 20ویں صدی کا تعلیمی نظام اور نظریات 21ویں صدی میں ہماری ترقی کی رفتار کا تعین نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم بدلتے ہوئے نظام کے ساتھ ترقی نہیں کرتے ہیں تو ہم پیچھے چھوٹ جائیں گے اور واپس پیچھے چلے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی کسی کے جذبے کی پیروی کا موقع فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے علم کے ساتھ ہنر کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی کے حصے کے طور پر مہارتوں کو شامل کرنے کے پیچھے یہی ایک وجہ ہے۔ انہوں نے مضامین کے انتخاب میں قومی تعلیمی پالیسی کی طرف سے فراہم کردہ لچک کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی کے مناسب نفاذ سے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ انہوں نے ملک بھر کے اسکولوں پر زور دیا کہ وہ طلباء کی ایجاد کردہ نئی ٹیکنالوجی کو لاگو کرنے کے لیے نئے طریقے دریافت کریں۔ غازی آباد، یوپی کی روشنی نے پوچھا کہ امتحانات کے نتائج کے بارے میں اپنے خاندان کی توقعات پر کیسے اتراجائے اور کیا تعلیم کو سنجیدگی سے لیا جائے جیسا کہ والدین امید کرتے ہیں یا اس سے ایک تہوار کی طرح لطف اندوز ہوا جائے ۔ بھٹنڈا، پنجاب کی کرن پریت کور نے بھی اسی طرح کا سوال پوچھا۔

 

وزیر اعظم نے والدین اور اساتذہ سے کہا کہ وہ اپنے خوابوں کے لئے طلبا کو مجبور نہ کریں۔ وزیر اعظم نے کہا ’’اساتذہ اور والدین کے ادھورے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے طلباء کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ ہر بچے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے خوابوں کی پیروی کرے۔‘‘ انہوں نے والدین اور اساتذہ پر زور دیا کہ وہ اس بات کو تسلیم کریں کہ ہر طالب علم میں کوئی نہ کوئی خاص صلاحیت ہوتی ہے اور اس کی صلاحیت کو پہچانیں۔ انہوں نے طالب علم سے کہا کہ وہ اپنی طاقت کو پہچانیں اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں۔ دہلی کے ویبھو کنوجیہ نے پوچھا کہ جب ہمارے پاس زیادہ پیچھے کا کام ہو تو کیسے حوصلہ افزا رہا جائے اور کامیابی حاصل کی جائے۔ اوڈیشہ سے تعلق رکھنے والے والدین، سوجیت کمار پردھان، جے پور کی کومل شرما اور دوحہ کے آرون ایبین نے بھی اسی موضوع پر سوالات پوچھے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ "حوصلہ افزائی کے لیے کوئی انجکشن یا فارمولہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے، اپنے آپ کو بہتر طریقے سے پہچانیں اور معلوم کریں کہ آپ کو کس چیز سے خوشی ملتی ہے اور اسی پر کام کریں۔ انہوں نے طلباء سے کہا کہ وہ ایسی چیزوں کی نشاندہی کریں جو انہیں قدرتی طور پر تحریک دیتی ہیں، انہوں نے اس عمل میں خود مختاری پر زور دیا اور طلباء سے کہا کہ وہ اپنی پریشانیوں پر ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے طلباء کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ ارد گرد کے ماحول کا مشاہدہ کریں کہ بچے، دیویانگ اور فطرت کس طرح اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ’’ہمیں اپنے اردگرد کی کوششوں اور طاقتوں کا مشاہدہ کرنا چاہیے اور ان سے تحریک حاصل کرنی چاہیے‘‘۔

انہوں نے اپنی کتاب ایگزام واریئرس کا بھی ذکر کیا کہ کس طرح کوئی بھی ’امتحان‘ کو خط لکھ کر اور اپنی طاقت اور تیاری کے ساتھ امتحان کو چیلنج کرنے سے حوصلہ افزائی کر سکتا ہے۔ کھمم، تلنگانہ کی انوشا نے کہا کہ جب اساتذہ انہیں پڑھاتے ہیں تو وہ موضوعات کو سمجھتی ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد بھول جاتی ہیں۔ اس امر سے کیسے نمٹا جائے۔ گایتری سکسینہ نے نمو ایپ کے ذریعے یادداشت اور سمجھ بوجھ کے بارے میں سوال پوچھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پوری توجہ سے چیزیں سیکھی جائیں تو کچھ نہیں بھولیں گے۔ انہوں نے طالب علموں کو زمانہ حال میں پوری طرح حاضر رہنے کے لئے کہا۔ حال کے بارے میں یہ ذہن سازی انہیں سیکھنے اور یاد رکھنے میں مدد دے گی۔ انہوں نے کہا کہ حال سب سے بڑا 'حال' ہے اور جو شخص حال میں رہتا ہے اور اسے پوری طرح سمجھتا ہے وہ زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ انہوں نے اُن سے کہا کہ وہ یادداشت کی طاقت کا خزانہ رکھیں اور اُسے بڑھاتے رہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک مستحکم ذہن چیزوں کو یاد کرنے کے لیے بہترین اور مناسب ہے۔ جھارکھنڈ کی شویتا کماری نے کہا کہ وہ رات کو پڑھنا پسند کرتی ہیں لیکن دن کے وقت پڑھنے کو کہا جاتا ہے۔ راگھو جوشی نے نمو ایپ کے ذریعے پڑھائی کے لیے مناسب نظام الاوقات کے بارے میں بھی پوچھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کسی کی کوشش کے نتائج اور وقت کیسے گزر رہا ہے، اس کا تجزیہ کرنا ایک بے حد اچھی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیداوار اور نتائج کا تجزیہ کرنے کی یہ عادت تعلیم کا ایک اہم حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکثر ہم ان مضامین کے لیے زیادہ وقت دیتے ہیں جو ہمارے لیے آسان اور دلچسپی کے حامل ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ’دماغ، دل اور جسم کی دھوکہ دہی‘ پر قابو پانے کے لیے جان بوجھ کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ایسے کام کریں جس سے آپ لطف اندوز ہوں اور یہی وہ وقت ہے جب آپ کو زیادہ سے زیادہ نتیجہ حاصل ہوگا۔‘‘ ادھم پور، جموں و کشمیر کی ایریکا جارج نے پوچھا کہ ان لوگوں کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے جو علم رکھتے ہیں لیکن بعض وجوہات کی بنا پر صحیح امتحان میں شرکت نہیں کر پاتے ہیں۔ گوتم بدھ نگر کے ہیئر اوم مشرا نے پوچھا کہ انہیں مسابقتی امتحانات اور بورڈ کے امتحان کے لیے پڑھائی کے مطالبات کو کس طرح سنبھالنا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ امتحانات کے لیے پڑھنا غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی پورے ذہن کے ساتھ نصاب کا مکمل مطالعہ کرے تو مختلف امتحانات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بجائے مضمون میں مہارت حاصل کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کھلاڑی کھیلوں کی ٹریننگ کرتے ہیں مقابلہ کے لیے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’آپ کا تعلق ایک خاص نسل سے ہے۔ ہاں، مقابلہ زیادہ ہے لیکن مواقع بھی زیادہ ہیں ‘‘۔ انہوں نے طالب علموں سے کہا کہ وہ مقابلے کو اپنے وقت کا سب سے بڑا تحفہ سمجھیں۔ نوساری گجرات کے ایک والدین سیما چیتن دیسائی نے وزیر اعظم سے پوچھا کہ معاشرہ کس طرح دیہی لڑکیوں کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ مودی نے کہا کہ جب لڑکیوں کی تعلیم کو نظر انداز کیا جاتا تھا اس وقت سے لے کر اب تک حالات بہت بدل چکے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ لڑکیوں کی مناسب تعلیم کو یقینی بنائے بغیر کوئی معاشرہ بہتر نہیں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیٹیوں کو بااختیار اور مواقع کو ادارہ جاتی بنایا جائے۔ لڑکیاں زیادہ قیمتی سرمایہ بن رہی ہیں اور یہ تبدیلی بے حد خوش آئند ہے۔

انہوں نے کہا کہ آزادی کے امرت مہوتسو کے سال میں بھارت میں آزاد ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’’ بیٹی خاندان کی طاقت ہوتی ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں ہماری ناری شکتی کی شاندار کارکردگی کو دیکھنے سے بہتر کیا ہو سکتا ہے‘‘۔ دہلی کی پویترا راؤ نے سوال کیا کہ نئی نسل کو ماحولیات کے تحفظ میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ چیتنیا نے پوچھا کہ اپنی کلاس اور ماحول کو صاف ستھرا اور سرسبز کیسے بنایا جائے۔ وزیر اعظم نے طلباء کا شکریہ ادا کیا اور انہیں اس ملک کو صاف ستھرا اور سرسبز بنانے کا سہرا دیا۔ بچوں نے جھوٹ بولنے والوں کی مخالفت کی اور وزیر اعظم کے سوچھتا کے عہد کو صحیح معنوں میں سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جس ماحول سے لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ ہمارے اسلاف کی شراکت داری کے سبب ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی آنے والی نسل کے لیے بہتر ماحول چھوڑنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف شہریوں کے تعاون سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے "پی 3 موومنٹ" - پرو پلینٹ پیپل اینڈ لائف اسٹائل فار دی انوائرمنٹ - لائف کی اہمیت پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں 'استعمال کرواور پھینک دو' کے کلچر سے نکل کر مدورمعیشت کے طرز زندگی کی طرف بڑھنا ہو گا۔ وزیر اعظم نے امرت کال کی اہمیت پر زور دیا جو ملک کی ترقی میں طالب علم کے بہترین سالوں کے ساتھ اتفاقیہ طور سے ملتا ہے۔ انہوں نے اپنافرض ادا کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے طالب علموں کی تعریف کی کہ انہوں نے ٹیکہ لگوانے میں بھی اپنا فرض ادا کیا ہے۔ آخر میں وزیر اعظم نے پروگرام کا انعقاد کرنے والے طلباء کو بلایا اور ان کی مہارتوں اور اعتماد کی تعریف کی۔

انہوں نے دوسروں میں خوبیوں کی تعریف کرنے اور ان سے سیکھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ ہمیں حسد کی بجائے سیکھنے کا رجحان رکھنا چاہیے۔ یہ صلاحیت زندگی میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے اپنے لیے پی پی سی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک ذاتی نوٹ پر اپنی بات ختم کی ۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ نوجوان طلباء کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو وہ خود کو 50 سال چھوٹا محسوس کرتے ہیں۔وزیراعظم نے پرجوش نتیجہ اخذ کرتے ہوئے اپنی بات ختم کی کہ ’’میں آپ کی نسل سے وابستہ ہو کر آپ سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب میں آپ سے جڑتا ہوں تو مجھے آپ کی خواہشات اور خوابوں کی جھلک نظرآتی ہے اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس لیے یہ پروگرام میری ترقی میں مدد کر رہا ہے۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اپنی مدد کرنے اور بڑھنے کے لیے وقت دیا۔‘‘