سمیر شیخ / سری نگر
سری نگر شہر کی گنجان آبادی والے جمالتاعلاقے میں واقع ایک تین منزلہ مکان غم واداسی میں ڈوبا ہوا ہے۔اطلاع ملی ہے کہ اس مکان کاایک مکین مہران دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوگیاہے۔19 سالہ مہران یاسین شلا اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ اس گھر میں خوشی خوشی رہتا تھا۔ لیکن جیسے ہی وہ تنظیم میں شامل ہوا ، وہ خاموشی سے گھر چھوڑ کرچلا گیا۔
گھر کے سامنے سے گزرنے والوں کو خواتین کی چیخیں سنائی پڑتی ہیں جودھاڑیں مار مار کر رورہی ہیں۔ مہران کے گھر چھوڑنے کے بعد ، اس کے ادھیڑ عمر والدین غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہاں ، اس امید کے ساتھ دن بھر رشتے داروں کا آنا جانا جاری ہے کہ شاید مہران کے بارے میں کوئی خبر سننے کو مل جائےلیکن سب کو مایوسی ہاتھ لگی۔ مہران 18 مئی کی شام کو لاپتہ ہوگیا تھا۔
اس کے بعد اس کے اہل خانہ کو سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو سے اس کے بارے میں اطلاع ملی۔ ویڈیو میں ، مہران نے دہشت گرد بننے کے اپنے فیصلے کے بارے میں معلومات دی تھی۔ مہران کا بڑا بھائی فیضان اس مذموم فیصلے سے انتہائی حیران اور پریشان ہے۔ بھائی کے گھر چھوڑنے کے بعد اسے کئی دن تک نیند نہیں آئی۔ ہر آنے والا یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے چھوٹے بھائی نے اتنا خوفناک فیصلہ کیوں اور کس کے دباؤ میں لیا؟ فیضان نے اپنے چھوٹے بھائی مہران کے ساتھ مل کر مستقبل کے بہت سے منصوبے بنائے تھے ، جو ادھورے رہ گئے ۔
مہران کی والدہ رفیقہ ،بیٹے کے گھر چھوڑنے اور ویڈیو جاری کرنے کے بعد سے بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ 55 سالہ رفیقہ اس قدر ذہنی دباؤ میں ہیں کہ انھیں ڈاکٹر کی مدد لینی پڑ رہی ہے۔ مہران، چمڑے کے تاجر محمد یاسین شلا کے تین بچوں میں سب سے چھوٹا ہے۔
ساٹھ سالہ یاسین اب تک یہ جاننے میں ناکام ر ہے ہیں کہ ان کے بیٹے نے ایسی زندگی کیوں منتخب کی جہاں موت ہر جگہ موجود ہے۔ مہران سری نگر کے گاندھی میموریل کالج میں اپنے انڈرگریجویٹ کورس کے دوسرے سمسٹر میں تھا۔ اس کے علاوہ ، ایک نجی کمپنی کے لئے ، کورئیر ڈیلیوری بوائے کی حیثیت سے پارٹ ٹائم کام بھی کرتاتھا۔ اس کا بڑا بھائی 24 سالہ فیضان گریجویشن کے آخری سال میں ہے اور وہ بھی جز وقتی کام کرتا ہے۔
اس کی بڑی بہن 28 سال کی ہے اور وہ ایک نجی کمپنی میں کام کرتی ہے۔ کھاتا پِیتا خاندان ہے۔ اسے کسی قم کی تنگی نہیں ہے۔مہران کی ویڈیو کے جواب میں ، اس کے اہل خانہ نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے ، جس میں مہران کا ماموں روتا ہوا دکھائی دے رہاہے۔ مہران اس کا عزیز بھانجا تھا۔ وہ رو کر کہتا ہے کہ "واپس آجاؤ!" تم جانتے ہو کہ میں کن مشکلات سے گزر رہا ہوں۔ تم نے جو تکلیف مجھے دی ہے وہ ناقابل برداشت اور لاعلاج ہے۔
گھر واپس آئو میں تم کو ایک نرم خو اور بہادر لڑکے کے طورپر دیکھنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ تم بندوق اٹھا کر کسی کھیل کا حصہ بنو گے جہاں موت ہی واحد خاتمہ ہے۔ "
حال ہی میں عید کا جوش و خروش ختم ہوا۔ مہران نے اپنے اہل خانہ کے لئے پکی ہوئی کھانے کی اشیاء خریدی تھیں اور سب نے مل کر عید کی خوشی منائی۔ لیکن مہران شام تقریبا 7.15 بجے گھر سے نکلا اور واپس نہیں آیا۔ متعلقہ کنبہ نے مقامی پولیس اسٹیشن میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔
دریں اثنا ، 20 مئی کو کشمیر میں ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ، جس میں مہران عسکریت پسند تنظیم دی ریسسٹنٹ فرنٹ میں شمولیت کو قبول کرتانظر آیا۔ تب سے اس کے والدین اور بہن، بھائی صدمے میں ہیں۔
وہ کوشاں ہیں کہ مہران کسی نہ کسی طرح گھر لوٹ آئے۔ مہران کے غمزدہ کنبے نے ایک ویڈیو کلپ جاری کیا جس میں اسے گھر واپس آنے کی اپیل کی۔ اسے لگتا ہے کہ ویڈیو کلپ میں کنبہ کی پوزیشن دیکھ کر وہ واپس آجائیگا۔ ویڈیو میں اس کے والدین روتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے اپیل کرتے ہیں کہ واپس آجائو۔