رانا صدیقی زمان/نوئیڈا (یوپی)
مسلمانوں کو خاموشی سے سماجی کام کرتے ہوئے،دیکھنا کوئی حیرت انگیز نہیں ہے۔ایسے ہی ایک شخص ہیں ڈاکٹر سرفراز الدین ،جو ہومیوپیتھتک معالج ہیں اورسیکٹر 105، نوئیڈا، (اتر پردیش) میں رہتے ہیں۔ وہ پچھلے پانچ سالوں سے روزانہ 100 ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور طلباء کو مفت پڑھاتے ہیں۔ وہ کوڈ سے مرنے والے گمنام افراد کی آخری رسومات کا بھی انتظام کرتے رہی ہیں۔انہوں نے غریب بچیوں کی شادیاں بھی کرائی ہیں۔
ڈاکٹر سرفراز، مختلف سطحوں پر اچھا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے غریبوں کو کھانا کھلانے کا انتظام ایک اسکول میں کیا ہواہے۔ یہ اسکول بھی 2009 میں انہوں نے اپنے ہی پیسوں غریب بچوں کی تعلیم کے لئے کھولا تھا۔ دومنزلہ اسکول میں 20 کمرے ہیں۔ اس میں ایسے طلباء ہی ہیں، جو اپنے والدین میں سے کسی ایک کو کھو چکے ہیں یا یتیم ہیں،یا گھریلو ملازموں کے بچے ہیں۔ اس اسکول میں دیہاڑی مزدورں، گارڈ،مالی اور صفائی کا کام کرنے والوں کے بچے مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بچے بھی جو معمولی فیس ادا کرتے ہیں۔
کھانا اور پانی کی تقسیم کا منظر
کل 400 طلباء میں سے زیادہ تر غیر مسلم ہیں جبکہ ان میں سے 40 کا تعلق قریبی مدارس سے ہے۔ انہوں نے حال ہی میں گیجھا کے مدرسوں کے ان طلباء کو جن کے پاس جدید تعلیم نہیں تھی، اپنے اسکول میں جمع کیا، انہیں جدید تعلیم کی بنیادی باتیں سکھائیں، انہیں کمپیوٹر کی تربیت دی، اور انہیں اپنے ایم ایم اسکول (یو پی بورڈ) میں آٹھویں جماعت کے طلباء کے برابر کیا۔ تاکہ وہ بورڈ کے امتحانات دے سکیں اور بعد میں مسابقتی مضامین کا انتخاب کر سکیں؛ انجینئرنگ، طب اور اپنے پسندیدہ مضامین لے کر آگے پڑھ سکیں۔
مزید برآں، انہوں نے ان طلباء کی کوچنگ بھی شروع کرا دی ہے جو والی بال کھیلنا چاہتے ہیں۔ یہ انہیں فٹ رکھتا ہے اور اگر ان میں سے کچھ اچھا کھیلتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں، انہیں ریاستی اور قومی سطح کے مقابلوں میں بھیجا جائے گا۔ یہ بچے مدارس اور قریبی سرکاری اسکولوں سے ہیں جن میں نہ جگہ ہے اور نہ مفت کوچنگ کا انتظام ہے۔ ایسے 100 طلباء مختلف سیشنز میں کوچنگ لیتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر غیر مسلم ہیں۔
بیس سالہ وشال جو یہاں کھانے آتے تھے بتاتے ہیں کہ ، ''میرے والد دہاڑی مزدوری کرتے ہیں اور ماں گھریلو ملازمہ ہیں۔ مجھے اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ چنانچہ میں نے اسکول میں طلبہ کو کوچ کرنے کی پیشکش کی اور انہوں نے آسانی سے رضامندی ظاہر کردی۔ اب میں 100 طلباء کو کوچ کرتا ہوں جو کوئی فیس نہیں دیتے لیکن مجھے سرفراز سر سے اچھی ادائیگی ملتی ہے۔ میں ریاستی اور قومی سطح پر کھیل چکا ہوں۔ اگر میں مزید کھیل سکتا ہوں تو مجھے الگ سے اسپانسر کیا جائے گا۔
وشال کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹرسرفراز سے وہ اپنی والدہ، بہن بھائیوں اور خاندان کے لیے جو دوائیں لیتے ہیں اس کا معاوضہ وہ نہیں لیتے۔ ڈاکٹرسرفراز متبادل ہفتہ اور اتوار کو گیجھا میں واقع اپنے کلینک میں علاقے کے پسماندہ افراد کا مفت علاج بھی کرتے ہیں۔ وہ انہیں مفت ادویات بھی دیتے ہیں۔ مزید برآں، وہ غریب مریضوں کے لیے باقاعدگی سے میڈیکل کیمپ لگاتے ہیں۔ کوویڈ اور لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران، کیمپ کو "چند مہینوں کے لیے فنڈز کی کمی" کی وجہ سے روکنا پڑا۔
ڈاکٹر سرفراز بتاتے ہیں "میں ہمیشہ سماجی خدمت میں دلچسپی رکھتا تھا کیونکہ میرے والد، یوپی کے ایک سرکاری اسکول کے پرنسپل تھے،انہیں سماجی کام کرتے ہوئے شوق سے دیکھتا تھا۔ تو یہ کام میرے بھی آگیا ہے۔ میں نے اپنے کلینک کو بھنگیل سے گیجھا منتقل کر کے اپنے والد کے ساتھ خدمت کرنا شروع کر دیا۔
وہ اتنے بڑے کام کے لئے فنڈز کا انتظام کیسے کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں، "میں خسارے میں ہونے کے باوجود یہ کرتا ہوں۔ ہم چیزیں ادھار پر حاصل کرتے ہیں اور پرانے واجبات کو کلیئر کرتے ہیں اور دوبارہ ادھار پر نئی چیزیں لاتے ہیں۔ اپنی جیب سے خرچ کرنے کے علاوہ، میرے دوستوں کا ایک چھوٹا سا حلقہ ہے جو مجھے مستقل یا بے قاعدہ طور پر سپورٹ کرتا ہے۔ بعض اوقات نامعلوم ذرائع سے کچھ مدد ملتی ہے۔ اپنے ہومیوپیتھی کلینک کے علاوہ، وہ ایک چھوٹا سا طبی مرکز بھی چلا رہے ہیں جو اچھے کام کے کچھ اخراجات اٹھاتا ہے۔
سرفراز بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران نوئیڈا ایکسپریس وے سے تارکین وطن مزدوروں کو ننگے پاؤں، بھوکے اور بیمار گھر جاتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے اپنے خیراتی کام کو مزیدبڑھایا۔ ڈاکٹر سرفراز نے کہا انہیں دیکھ کر تکلیف ہوئی۔ میں نے سڑک پر کیلے، پھل، بسکٹ وغیرہ جو کچھ بھی بکتے دیکھا خرید لیا۔قریبی مدرسوں کے کچھ مولاناحضرات کو بلایا اور دوسرے لوگوں کو جمع کیا۔ ہم سب سڑک پر کھڑے کئی کئی دنوں تک ان مزدوروں کو دن رات کھانا کھلاتے رہے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں اب بھی پسماندہ لوگوں کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر رہا ہوں۔‘‘
راجیش یادو،جن کی مدد سرفراز نے کی ہے، ماضی کی یادوں میں جاتے ہوئے بتاتے ہیں، ''میں سیکٹر 45 میں رہتا ہوں جو یہاں سے بہت دور ہے۔ لاک ڈاؤن کی پوری مدت کے دوران، میرا خاندان اس لئے زندہ بچا کیونکہ وہ روزانہ دو بار کھانا تقسیم کرتے تھے۔ میں نے انہیں مزدوروں وغیرہ سے بھری بسوں اور ٹرکوں کے پیچھے کھانا بانٹتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہوں نے مجھے مستحقین کے لیے کھانا بنانے کی پیشکش بھی کی کیونکہ میں پیشے سے حلوائی (مٹھائی بنانے والا) ہوں۔ کوویڈ کی مدت اور دو سال کے لاک ڈاؤن کے دوران، تمام شٹر ڈاؤن تھے۔
کوویڈ کے دوران انہوں نے بہت سے محروم خاندانوں کی مدد کی ،کوڈ سے مرنے والوں کی لاوارث لاشیں لائے اوران کی تدفین کی۔ غریبوں کی بیٹیوں کی شادی میں مدد فراہم کی۔ محمد شاہد جو کہ پیشے سے ایک ٹرانسپورٹر ہیں، بتاتے ہیں، ''میں 2008 میں نوئیڈا شفٹ ہو گیا تھا۔ تب سے میں سرفراز بھائی کو غریبوں کے لیے انتھک محنت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ میری نظر میں انہوں نے جو دو سب سے بڑے کام کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ قریب کی کئی سوسائٹیوں سے میت کو اپنے گھر لائے اور ان کی آخری رسومات ادا کریں۔ ان کو غسل دینا، اور احترام کے ساتھ دفن کرنا، ایک بڑا کام تھا۔
انہوں نے کوویڈ کے دوران یہ کیا اور اب بھی کر ر ہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ویران علاقے میں مسلمانوں کا کوئی قبرستان نہیں تھا۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا کیونکہ دوسرے قبرستان بھیڑ کی وجہ سے ہمیں اپنے مُردوں کو دفنانے نہیں دیتے تھے۔انہوں نے اس کا انتظام کرایا۔
والی بال میں کوچ وشال یادو نے طلباء کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا ساتھ دیا۔ یہاں ایک مشہور بلڈرعلاقے کے چند لالچی مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک فلک بوس عمارت بنانے کے لیے قبرستان کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ ان کی جدوجہد سے آخر کار قبرستان کی تقریباً 2 ایکڑ اراضی محفوظ رہ گئی۔ ڈاکٹر سرفراز نے واحد قبرستان بنا کر نوئیڈا ایکسپریس وے اور اس کے آس پاس کے مسلمانوں کی بہت مدد کی ہے۔ وشال کہتے ہیں کہ میں ان کے دوسرے فلاحی کاموں سے بھی واقف ہوں اور اس حقیقت کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ کثیررقم سے بھی دوسری این جی اوز ایسے کام نہیں کرسکتیں جو انہوں نے کیا ہے۔
سرفراز کا خاندان، میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتمل ہے۔، سرفراز کہتے ہیں، ’’وہ اکثر پریشان رہتے ہیں کیونکہ یہ کام انہیں حد سے زیادہ مصروف رکھتے ہیں، لیکن وہ ساتھ دیتے رہتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہ کبھی نہیں بدلیں گے، یہ بھی ان کے نظام کا حصہ بنتا جا رہا ہے،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔ تاہم، اپنی اہلیہ شاہین سے اتفاق کرتے ہوئے، انہوں نے مزید کہا کہ خدمت خلق بھی ان کی پرورش کا حصہ رہی ہے۔
ڈاکٹرسرفراز کی بیوی شاہین کہتی ہیں کہ "میرے والد ایک اسکول ٹیچر تھے جن کا ٹرانسپورٹ کا خاندانی کاروبار بھی تھا، وہ ہمیشہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ بادپور دہلی کے قریب علی گاوں میں، جہاں ہم رہتے تھے، کم از کم 20 محروم لوگ روزانہ ہمارے گھر کھائیں۔ مجھے یاد ہے کہ تمام غریب خاندان روزانہ ہمارے گھر چائے اور ناشتہ کیا کرتے تھے۔ شادی کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر سرفراز ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ہم سب کوویڈ میں مبتلا تھے ، وہ صبح کے اوقات میں ضرورت مندوں کی مدد کے لئے گھر سے نکل جاتے تھے۔
کوچ وشال اپنے طلبہ کے ساتھ
وہ ہنستے ہوئے مزید کہتی ہیں، "وہ ہم سے کہہ دیتے ، میں نے تم لوگوں کو فجر کی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ مجھے افسردہ کرتا ہے اس لیے میں نماز پڑھنے کے لیے قریبی مسجد جاتا ہوں۔‘‘ شاہین کا مزید کہنا ہے کہ ان کے بچوں نے یہ عادت قدرتی طور پر اپنا لی ہے۔ اس کی نوعمر بیٹیاں، ثناء اور صبا، بالترتیب ٹیکسٹائل اور پروڈکٹ ڈیزائنرز نے اپنی تھوڑی سی کمائی یا جیب خرچ سے 2.5 فیصد کو زکوٰۃ کے طور پر الگ رکھنا شروع کر دیا ہے۔
وہ اپنے بیٹے 14 سالہ اسد کے بارے میں ایک حالیہ واقعہ بھی یاد کرتی ہیں، جو گیجھا مسجد کے قریب ہر جمعہ کو فروخت ہونے والی مزیدار بریانی کھانا چاہتا تھا۔ “اس نے پیسے مانگے لیکن وہ خالی ہاتھ اور بھوکا واپس آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے بریانی کیوں نہیں کھائی۔ اس نے جواب دیا، گھر سے جاتے ہی دو بوڑھی عورتوں نے کچھ پیسے مانگے۔ وہ سب کچھ دے کر واپس آگیا۔ وہ انہیں کھانا کھلانے کے لیے بھوکا رہا۔ تو، یہ خاندان میں چلتا ہے،" وہ مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں۔ سچ ہی کسی نے کہاہے کہ صدقہ گھر سے شروع ہوتا ہے؟