دہلی فسادات: نفرت انگیز تقاریرکی جانچ کی درخواست پر 8 فروری سے سماعت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 04-02-2022
دہلی فسادات: نفرت انگیز تقاریرکی جانچ کی درخواست پرہائی کورٹ میں 8 فروری سے ہوگی سماعت
دہلی فسادات: نفرت انگیز تقاریرکی جانچ کی درخواست پرہائی کورٹ میں 8 فروری سے ہوگی سماعت

 

 

آواز دی وائس، نئی دہلی

 دہلی ہائی کورٹ آئندہ ہفتے 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات کی آزاد ایس آئی ٹی سے جانچ کی درخواست کی سماعت شروع کرے گی۔ خیال رہے کہ درخواستوں میں مبینہ طور پر نفرت انگیز تقاریر کے الزام میں سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج اورپولیس افسران کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

جسٹس سدھارتھ مردول اور جسٹس انوپ جے بھیم بھانی کی بنچ نے اس معاملے کی سماعت 8 فروری 2022 کو مقرر کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، بنچ نے تمام درخواست گزاروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کی شناخت کریں اور ان کو جمع کریں، تاکہ عدالت فیصلہ کر سکے کہ کن نکات پر سماعت کرنی ہے۔ وہیں بنچ نے درخواست گزاروں سے کہا کہ وہ بتائیں کہ ان کی درخواستوں میں سے کون سے مطالبات ابھی تک زیر التوا ہیں اور کون سے غیر موثر یا پورے ہوئے ہیں۔

یہ ہدایت اس لیے کی ہے کیونکہ اس سے قبل ان درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ کر رہی تھی۔ لیکن 28 جنوری2022 کو چیف جسٹس کی سربراہی والی بنچ نے معاملہ جسٹس مردول کی سربراہی والی بنچ کو منتقل کر دیا ہے۔ دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے بنچ کو بتایا کہ مقدمات کی تحقیقات آخری مرحلے میں ہے۔ اس سلسلے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور مختلف مقدمات میں الزامات عائد کیے گئے ہیں اورمقدمے چل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس چیف جسٹس بنچ کے سامنے اسٹیٹس رپورٹس داخل کر رہی ہے جو فسادات کے مقدمات کی تحقیقات میں پیش رفت کے بارے میں باقاعدہ اپ ڈیٹس دے رہی ہے۔ حال ہی میں درج کردہ اسٹیٹس رپورٹ میں دہلی پولیس نے بتایا کہ فسادات کے معاملات میں درج 758 ایف آئی آر میں سے 384 مقدمات میں تفتیش زیر التوا ہیں۔

پولیس نے کہا کہ367 مقدمات میں چارج شیٹ داخل کی گئی ہیں اور تین مقدمات میں کینسلیشن رپورٹس داخل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ چار مقدمات کو ہائی کورٹ نے خارج کر دیا۔ پولیس نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ فسادات کے سلسلے میں درج کی گئی ایف آئی آر کی فوری طور پر قانون کے مطابق تفتیش کی گئی اور پولیس کی جانب سے معتبر، دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں تفتیش کی گئی۔ مزید یہ کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کی پوری مدت کے دوران دہلی پولیس چوکس رہی اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے کہ مظاہروں میں اضافہ نہ ہو۔

جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے دائر درخواستوں میں سے ایک میں سپریم کورٹ یا دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے ذریعہ مقدمات کی منصفانہ جانچ کی مانگ کی گئی تھی۔ اجے گوتم کی طرف سے دائر درخواست میں قومی تحقیقاتی ایجنسی سے کہا گیا ہے کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کی فنڈنگ ​​اور اسپانسرنگ کی تحقیقات کرے۔ عرضی گزار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان مظاہروں کو مبینہ طور پر پی ایف آئی کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی گئی ہے، جو ان کے مطابق ایک ملک مخالف تنظیم ہے اور اسے کانگریس اور عام آدمی پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔

ان دعوؤں کے علاوہ درخواست گزار نے سیاسی رہنماؤں جیسے وارث پٹھان، اسد الدین اویسی اور سلمان خورشید کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقریر کے استعمال کے لیے ایف آئی آر کے اندراج کا بھی کہا۔ ایک اور عرضی میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور ابھے ورما کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج اور تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر دہلی فسادات کو بھڑکانے کے لیے نفرت انگیز ریمارکس کیے ہیں۔