نئی دہلی، ۔اسٹوڈنٹ ایکٹیوسٹ گلفشاں فاطمہ نے 2020 کے دہلی فسادات سے متعلق مقدمے میں دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی ضمانت مسترد کیے جانے کے بعد سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ گلفشاں فاطمہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہروں میں ایک نمایاں چہرہ رہی ہیں۔ انہیں 9 اپریل 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت بھی حراست میں ہیں۔ ان پر یو اے پی اے کے تحت الزامات عائد ہیں۔ دہلی پولیس کی چارج شیٹ میں گلفشاں فاطمہ اور دیگر ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے فروری 2020 کے آخری ہفتے میں قومی دارالحکومت میں پھیلے فرقہ وارانہ تشدد کے پیچھے ’بڑی سازش‘ رچی تھی۔
2 ستمبر کو دہلی ہائی کورٹ کی ڈویژن بینچ نے گلفشاں فاطمہ سمیت آٹھ دیگر افراد کی درخواست ضمانت خارج کر دی تھی۔ اسٹوڈنٹ ایکٹیوسٹ شرجیل امام نے بھی اسی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے علیحدہ عرضداشت دائر کی ہے۔
اس مقدمے کے دیگر ملزمان میں طاہر حسین، عمر خالد، خالد سیفی، عشرت جہاں، میران حیدر، شفاء الرحمن، آصف اقبال تنہا، شاداب احمد، تسلیم احمد، سلیم ملک، محمد سلیم خان، اطہر خان، صفورہ زرگر، شرجیل امام، دیوانگنا کلیتا، فیضان خان اور نتاشا نروال شامل ہیں۔
اس سے قبل جون 2020 میں صفورہ زرگر کو حاملہ ہونے کی وجہ سے انسانی بنیادوں پر ضمانت دی گئی تھی، جبکہ جون 2021 میں دہلی ہائی کورٹ نے میرٹ کی بنیاد پر آصف اقبال تنہا، دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال کو ضمانت کی اجازت دی تھی۔
اب گلفشاں فاطمہ کی درخواست سپریم کورٹ میں زیرِ غور ہے اور یہ مقدمہ شرجیل امام سمیت دیگر عرضیوں کے ساتھ سنا جائے گا۔