پروفیسر ابن کنول کا انتقال

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 11-02-2023
پروفیسر ابن کنول کا انتقال
پروفیسر ابن کنول کا انتقال

 

 

آواز دی وائس /نیو دہلی

 ممتاز افسانہ نگار  پروفیسر ابن کنول(ناصر محمود کمال)  سابق صدر شعبہ اردو ،دہلی یونیورسٹی کا انتقال ہوگیا ہے - وہ بیسیوں کتابوں کے مصنف تھے ۔تخلیقی کاوشوں میں شاہکار افسانے،خاکے، انشائیے،ڈرامےاور سفرنامہ وغیرہ قابل رشک تصنیف ہیں۔تنقید میں بھی  ان کا کوئی ثانی نہیں تھا- ان گنت طلباء وطالبات نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کا شرف حاصل کیا تھا- ان کی موت کی خبر نے ادبی و تدریس حلقے میں اداسی پھیل گئی ہے_

پروفیسر ابن کنول کا اصل نام ناصر محمود کمال ہے۔ ان ولادت اتر پردیش کے ضلع مرادآباد کے قصبہ بہجوئی میں 15/ اکتوبر/ 1957 کو ایک زمیندار خاندان میں ہوئی تھی۔ والد محترم مشہور قومی شاعر قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی تھے ۔

ان کے اجداد بادشاہ شاہ جہاں کے عہد میں ہندوستان آئے اور قاضی کے عہدے سے نوازے گئے۔ انہیں حکومت کی طرف سے جاگیریں دی گئیں۔ بعد میں ان کے بزرگ قصبہ ڈبائی میں آکر رہائش پذیر ہوگئے۔ ان کا خاندان ہمیشہ سے ہی علمی و ادبی سرگرمیوں کے سبب کافی مشہور رہا ہے۔ دادا قاضی شریعت اﷲ (متوفی 1930) ایک قابل وکیل تھے ۔ پردادا قاضی ادہم علی فارسی اور سنسکرت کے عالم تھے۔ان کے والد کنول ڈبائیوی کی شاعری حب الوطنی کے جذبے سے معمور ہے ۔

ان کی شاعری کے دو مجموعے “بساط زیست” اور ’’سوزوطن‘‘ ان کی زندگی ہی میں شائع ہوچکے تھے۔ بعد میں ان کے فرزند ارجمند پروفیسر ابنِ کنول نے ان کی شاعری کو ایک کلیات کی شکل میں”مضراب” کے نام سے شائع کیا۔کنول ڈبائیوی کی شاعری کو پروفیسر آل احمد سرور ، پروفیسر مسعود حسین خاں، خواجہ احمد فاروقی ،میکش اکبرآبادی اور پروفیسر عبدالحق جیسے مشہور ناقدین فن نے سراہا ہے۔

انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ضلع بدایوں کے قصبہ گنور میں ایک اسلامیہ اسکول میں حاصل کی۔ 1962 میں پہلی جماعت میں داخلہ ہوا تھا۔پہلے استاد حاجی صفدر علی تھے۔پانچویں جماعت کے بعد آگے کی تعلیم کے لئے علی گڑھ کا رخ کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے منٹو سرکل اسکول (جو سیف الدین طاہر ہائی اسکول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے -

 ۔ 1972 میں ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد پری یونی ورسٹی سائنس میں داخلہ لیا۔ 1978 میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ایم اے کیا۔

پروفیسر ابن کنول کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں علی گڑھ میں پروفیسر خورشید الاسلام ،پروفیسر قاضی عبدالستار، ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی، پروفیسر شہریار، پروفیسر نورالحسن نقوی، پروفیسر عتیق احمد صدیقی، پروفیسر منظر عباس نقوی، پروفیسر نعیم احمد اورپروفیسر اصغر عباس جیسے اساتذہ سے کسب فیض کا موقع ملا۔ایم اے مکمل کرنے کے بعد وہ دہلی چلے گئے جہاں سے ایم فل کیا۔

 تقریباً پانچ دہائیوں سے وہ اردو زبان وادب کے فروغ میں ہمہ تن مصروف ہتھے، چنانچہ اب تک مختلف اصناف میں متعدد تحقیقی، تنقیدی، علمی وادبی مضامین قلمبند کرچکے تھے۔ ان کے  افسانے قارئین کو حظ بہم پہنچارہے تھے۔

اب تک اپنی بیش قیمتی 28 کتابیں اردو دنیا کو عطا کر چکے ہیں جن میں ” تیسری دنیا کے لوگ ” (افسانے)1984، ” بند راستے ” (افسانے) 2000، ” ہندستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں ” 1988،  ” ریاض دلربا” (تحقیق) 1990، ” آؤ اردو سیکھیں ” (قاعدہ) 1993، ” داستان سے ناول تک ” (تنقید) 2001، ” انتخاب سخن” (اردو شاعری کا انتخاب) 2005، ” منتخب غزلیات ” 2005، ” اصناف پارینہ ” (قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ)2005، ” منتخب نظمیں ” 2005، ” تنقید و تحسین ” (تنقیدی مضامین کا مجموعہ) 2006، ” تحقیق وتدوین” (ترتیب) 2007، ” میر امن ” (مونوگراف) 2007، ” باغ و بہار ” (مقدمہ ومتن) 2008، ”  پہلے آپ ” (ڈرامہ) 2008، ” نظیر اکبر آبادی کی شاعری ” 2008،  ” مضراب ” (کنول ڈبائیوی کا کلیات مع مقدمہ) 2010، ” اردو افسانہ ” (افسانوی تنقید) 2011، ” پچاس افسانے” (افسانوی مجموعہ) 2014 ” تنقیدی اظہار ” (تنقید) 2015،”  فسانہ عجائب ” (مرتبہ) 2016، ” اردو لوک ناٹک روایت اور اسالیب” (ڈبائیوی) مرتبہ, 2014،” اھل الکھف ” (افسانے) عربی مترجم: احمد قاضی، مصر، 2018،  ” اردو شاعری ” (تنقید) 2019، ” داستان کی جمالیات” 2020، بساط نشاط دل (انشائیے)اورتبریک (تقاریظ)شامل ہیں۔