ماضی اورمستقبل کا پل ہے داستان گوئی ۔ سید ساحل آغا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-02-2023
 ماضی اورمستقبل کا پل ہے داستان گوئی  ۔ سید ساحل آغا
ماضی اورمستقبل کا پل ہے داستان گوئی ۔ سید ساحل آغا

 

 

شاہ عمران حسن، نئی دہلی

 

جو قومیں اپنا ماضی بھول جاتی ہیں وہ مستقبل میں اپنے ماضی میں  کی گئی  غلطیوں  کو دہرانے  کا عذاب جھیلتی ہیں،اس لیے اپنی تاریخ کو ہر حال میں یاد رکھئے،اور دوسری نسلوں تک منتقلی کا ذریعہ بنئے۔

 یہ باتیں ہندوستان کے مشہور و معروف داستان گو سیدساحل آغا نے آواز دی وائس سے انٹرویو کے دوران کہی۔ داستان گو سیدساحل آغا متنوع اور متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں، جہاں وہ بلند اخلاق اور حسن گفتار کے مالک ہیں، وہیں وہ دیگر داستان گو کے مقابلے میں اپنی انفرادیت بھی قائم رکھتے ہیں ۔

جہاں وہ گزرے ہوئے واقعات کو سنانے کا ہنر جانتے ہیں، وہیں وہ دورجدید کے کامیاب انسان کی کہانی بھی داستان کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔حال ہی میں انہیں نغمہ نگارجاوید اختر اور پاکستانی سابق باولر شعیب اختر کی داستان حیات دبئی اور شارجہ میں سنانے کا موقع ملا، جنھیں سامعین نے بہت پسند کیا اور انہیں داد و تحسین سے نوازا۔

 پیش کردہ داستانیں

سیدساحل آغا نے جو داستانیں اب تک پیش کی ہیں، ان میں کچھ یہ ہیں:داستان محبوب الہٰی، داستانِ امیر خسرو، داستانِ شعیب اختر، جشنِ جاوید اختر، داستان چراغ، داستانِ مہاتما، داستان اگنی کی اڑان، داستان میر،داستان غالب،داستان داغ، داستان شاہ اودھ، داستان سلطان اعظم، داستان دہلی کے شاعروں کی، داستان ایک راز، داستان دوویدھا،جشنِ وراثت ، داستان عشق میرا ، داستان ساحر، دلی دربار، ملا داستان گو، داستان ملا نصرالدین، تغلق نامہ، داستانِ زندگی، داستان وکرم اور بیتال،داستان عظمت، داستانِ سلطان صلاح الدین،داستان راجہ وکرم سوچھ بھارت ابھیان، داستان فتح،داستان انا،داستان عشق،داستان آخری داستان گو ،داستان درد،داستان تقسیم، داستان داستان گوئی وغیرہ ہیں۔ 

اس کے علاوہ انہوں نے ٹیلی ویژن پر بھی کام کیا ہے۔انہوں نے ڈی ڈی اردو کا خاص پروگرام  غالب امراؤ بیگم کو خود ہی لکھا اور اسے پیش کیا۔ وہیں انہوں نے مشہور چینل زی سلام کے لیے داستان گوئی لکھ کر پیش کی۔ جس کی ایک تفصیلی  سیریز نشر ہو ئی ۔ ۔ٹیلی ویژن کے علاوہ انہوں  نے بالی ووڈ کی فلم پری خانہ اور صنم خانہ بھی لکھی۔

awazurdu

کتاب 'داستان ہند'کی اشاعت

سیدساحل آغانے سنہ 2010 میں ایک کتاب داستانِ ہند لکھی۔یہ کتاب اگرچہ آن لائن دستیاب نہیں ہےتاہم انہوں نے اس میں موجود تمام کہانیاں ویڈیوز کی شکل میں انٹرنیٹ پر اپلوڈ کر دی ہیں ۔گویا یہی وہ تاریخی سال تھا جب وہ ایک طرف مصنف کی حیثیت سے اردو دنیا میں متعارف ہوئے تو دوسری طرف ایک داستان گو کی شکل میں اپنے فن سے لوگوں کو متاثر کرنا شروع کیا۔

داستان گو ئی کی تاریخی اور روحانی اہمیت کی وجہ سے مائل ہوۓ۔ اور اسی فن کا شوق انہیں نیشنل اسکول آف ڈرامہ لے گیا جہاں انہوں نے فن اور اداکاری کی باریکیاں سیکھیں۔چوں کہ داستان گوئی کا انداز باڈی لینگویج اور اداکاری پر منحصرہے۔

داستان گوئی کی بحالی

ایسا کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے آخری داستان گو میر باقر علی تھے، ان کی وفات سنہ 1928 میں ہوگئی۔ اس کے بعد سنہ 2005 میں داستان گوئی نے دوبارہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کیا،جب کہ شمس الرحمان فاروقی، نصیرالدین شاہ اور محمود فاروقی نے اسٹیج پر داستان پیش کرنی شروع کی۔اس کے بعد سے بہت لوگ فن میں سامنے آئے بلاشبہ سید ساحل آغا بھی ان میں ایک ہیں۔ اگرچہ وہ اپنی داستان گوئی کے ذریعہ یہ تمنا بھی رکھتےہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہندوستانی تہذیب اختیار کریں۔

awazurdu

داستان گوئی کی طرف رجحان

سیدساحل آغا نے آواز دی وائس کو بتایا کہ میرا داستان گوئی کی طرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زمانہ طالب علمی میں رجحان بڑھا۔ بہت کچھ لکھا جاچکا تھا اور بہت کچھ لکھا جا رہا تھا۔ لوگوں کی بڑھتی مصروفیت اور کم ہوتے  پڑھنے کے شوق کی وجہ سے میں نے لوگوں کو داستانیں سنانے کا فیصلہ کیا۔بنیادی طور پر میں خود ایک مصنف ہوں،اس لیے مجھے اس بات کا تجربہ تھا کہ لوگ پڑھنے کے مقابلے میں سننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ پھر میں نے سوچا کہ لوگوں کوکہانیاں سنائی جائے۔اس سے لوگوں کو جہاں گزرے ہوئے دنوں کے بارے میں جانکاریاں ملیں گی وہیں لوگوں کو کچھ سیکھنے کا بھی موقع ملے گا۔دوسری بات یہ بھی تھی کہ بہت سے اچھے لوگ بہت اچھا لکھ کر اس دنیا سے چلے گئے تھے، اب سوال یہ تھا کہ دنیا کے سامنے کس طرح ان کے کام کو لایا جائے۔اس کا طریقہ یہ تھا کہ لکھی ہوئی چیزوں کو سنا دیا جائے تاکہ لوگوں ان اچھی چیزوں کے بارے میں پتہ چل سکے، اسی جذبہ سے میں داستان گوئی کی طرف آیا۔

 صحافی کے گھر پیدا ہوا داستان گو

سیدساحل آغاکے والد سید منصور آغا سینئر صحافی اور مصنف ہیں۔انہوں نے اردو صحافت کی بڑی خدمت کی ہے، پوری زندگی وہ اردو زبان کے فروغ میں لگے رہے۔ اور اب ان کے صاحبزادے سید ساحل آغا داستان گوئی کے ذریعہ  اپنی تاریخ و تہذیب کے فروغ میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی حفاظت کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ والد محترم سید منصور آغا بطور صحافی دنیا کو حال کی خبریں بتا رہے تھے اور میں نے دنیا کے سامنے ماضی بیان کرنا شروع کیا۔میں لوگوں کو گزرا ہوا ماضی یاد دلا رہا ہوں۔داستان گوئی اور صحافی میں بس یہی فرق ہے۔

ماضی میں انسان نے بہت کچھ حاصل کیا ہے، اس کی ایک سنہری تاریخ ہے۔ایک معمولی آدمی کس طرح بلندی تک پہنچا،میں نے ارادہ کیا  کہ ان بلند و بالا انسانوں کی کہانیاں لوگوں کو بتائی جائیں تو  لوگ بہت دلچسپی سے سنیں گے اور اس سے  سبق بھی لیں گے۔یہ داستانیں یا کہانیاں ان کی زندگی میں تبدیلی کا محرک بن سکتی ہیں۔خواہ میر تقی میر کی داستان سنائیں ،خواہ ہم میزائیل مین سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی داستان سنائیں،ان داستانوں کو سنانے کا مقصد لوگوں کو یہی بتانا ہے کہ کس طرح ذرہ آفتاب تک پہنچ سکتا ہے۔ان گزری ہوئی شخصیات نے کس طرح سے محنت کی، جدو جہد کی اور کامیابیوں کی بلندی تک پہنچے۔

انہوں نے کہاکہ یہ کوئی بھی داستان ہوسکتی ہے۔یہ گنگا جمنی تہذیب کی داستان ہو سکتی ہے، یہ تقسیم ہندکی  بھی داستان ہوسکتی ہے،یہ ملک کی یکجہتی کی بھی داستان ہوسکتی ہے۔

awazurdu

داستان گوئی کے ذریعہ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ

سید ساحل آغا بتاتے ہیں کہ میرے والد اور میری والدہ دونوں مصنف اور خالہ نگار عظیم مشہورافسانہ نگارہیں ۔ نانا ثروت حسین میرٹھی شاعر اور خاندانی بزرگ علامہ اخلاق حسین دہلوی تاریخ نگار اور مصنف تھے۔ شام کو وہ دلی کے لال محل میں  لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر تقسیم ہند کے قصے سنایا کرتے تھے۔ وہ اس وقت کے حالات، تجربات اور سیاست کی باتیں داستان کی شکل میں پیش کیا کرتے تھے۔وہ اس انداز میں اپنی بات کہتے کہ جلد لوگ مبہوت ہو جاتے  اور دم بخود ہوکر سنتے رہتے ۔میں بھی اکثر ان کی مجالس میں شریک ہوا کرتا تھا، اس وقت میرے اندر بھی کہانی سنانے کا جذبہ پیدا ہوا،مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں بھی لوگوں کو اپنی کہانیاں سنا کر متاثر کر سکتا ہوں۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ تقسیم ہند کی کہانیاں ہمارے ملک کا اہم خزانہ ہیں، جسے میں عوام تک پہنچانا چاہتا تھا۔حب الوطنی کا یہی جذبہ تھا، جب کہ وہ ایک کتاب لکھنے پر مجبور ہوئے۔

    ان کا کہنا ہے کہ تقسیم کی داستانیں کوئی سنتا ہے تو اس کے سینے میں دو طرح کے جذبات ابھرتے ہیں، ایک تو یہ کہ جس نے میرا برا کیا ہے تو اس کا بھی برا ہوجائے، دوسرا جذبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ میرے ساتھ جو برا ہوا، وہ برا اب کسی اور کے ساتھ نہ ہو۔کسی پر یہ ظلم دوبارہ نہ ہو، کیوں کہ تقسیم داراصل ایک کالی آندھی تھی، جس نے بے شمار چیزیں برباد کردی تھیں۔اس کے نتیجے میں لوگوں کو غم، دکھ اور پریشانیاں ہی ملیں، کسی کو بھی خوشی نہیں ملی۔

تقسیم سے پہلے کا جو دور تھا وہ کتنا خوبصورت تھا، ایک آگ تھی، جس سے ہم گزرے ہیں، ہندوستان تقسیم سے پہلے ایک گلستاں تھا۔تب مجھےلگا کہ لوگوں کو ایسی داستانیں سنائی جائے جس میں محبت اور بھائی چارہ کی بات ہو۔

 وہ بتاتے ہیں کہ داستان گوئی شروع کرنے کا میرا مقصد یہی تھا کہ لوگوں میں حب الوطنی ، اتحاد ، مذہبی ہم آہنگی کا جذبہ پیدا کیا جائے اوراس کے ذریعہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا جائے۔

خاص طور سے حضرت امیر خسرو کی لکھی ہوئی داستان ، دیول رانی خضرخان کی داستان، دیول رانی  گجرات کی شہزادی دیول دیوی تھیں اور خضرخان دہلی کے شہزادے تھے۔

دونوں کی شادی ہوئی تھی اور دونوں قتل کردیے گئے۔ان کے  بھائی نے انہیں قتل کیا تھا کہ غیر المذاہب میں کیوں شادی ہوئی ۔کچھ ایسی ہی  مغل بادشاہ اورنگزیب اور ہیرا بائی کی کہانی ہے اس قسم کی داستانیں  گنگاجمنی تہذیب کی مثالی داستانیں ہیں۔جہاں لوگ ایک ہوئے تو ان کی زندگی گل اور گلشن بن گئی

انہوں نے مزید کہا کہ نفرت کےراستے پر چلنے سے انسان کوصرف دکھ اور تکلیف ملتی ہے، یہ چیزیں وقتی ہوتی ہیں۔

سب کے دلوں میں محبت کا جذبہ ہوتا ہے، جب میں کوئی داستان سناکر اسٹیج سے نیچے اترتا ہوں تو لوگ خواہ کسی بھی مذہب کے ہوں، جوق درجوق ملنے کے لیے ٹوٹ پڑتےہیں۔اس سے حوصلہ ملتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ میں بھی اپنے حصے کا کام کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کے بیچ میں جو غلط فہمیاں ہیں، ہم ان کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

awazurdu

اردو کی ترقی

سیدساحل آغا کا کہنا ہے کہ اردو کی جو موجودہ صورت حال ہے، اس کی دو سطحیں ہیں۔جہاں تک لکھی جانے والی اردو ہے یعنی رسم الخط کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ زوال پذیر ہے۔تاہم جہاں تک بولی جانے والی اردو ہے تو اس کا دائرہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں اردو سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ملیں گے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ زبان ارتقائی مراحل سے گزرتی رہتی ہے، میر نے کہا تھا کہ اب وہ زبان نہیں رہی، غالب نےاسی بات کو کہا تھا کہ اب وہ سننے والے نہیں رہے، فیض احمد فیض بھی یہی سب کہتے رہے۔جو زبانیں زندہ رہتی ہیں، وہ بدلتی رہتی ہیں۔بولی جانے والی زبان کا بڑھاوا ہوا ہے،زیادہ لوگ اردو کو پسند کر رہے ہیں۔ اسی طرح اردو کے نغمے زیادہ پسند کئے جاتے ہیں۔

داستان گوئی تو بولی یا سنائی جانے والی شئے ہے۔اسی وجہ سے لوگ بہت زیادہ اسے پسند کر رہے ہیں۔اس کا مستقبل بہت عمدہ دکھائی دیتا ہے۔

داستان گوئی اور نئی نسل

داستان گوئی ایک سنانے والی شئے ہے، اس لیے نئی نسل تک اس کی رسائی بہت آسان ہے۔اردو زبان میں مٹھاس ہے،جو کبھی ختم ہوہی نہیں سکتی۔اس لیے نئی نسل اردو سن کر اس سے متاثر ہوتی ہے۔

مثلاً آپ قوالی کو ہی دیکھ لیجئے، نئی نسل اس کی طرف مائل ہو رہی ہے۔انہیں سننے میں بہت مزہ آتا ہے۔

داستان گوئی اور سوشل میڈیا

سید ساحل آغا کہتے ہیں کہ داستان گوئی کے لیے سوشل میڈیا بہت ہی زیادہ معاون ہے، لائیوپرفارمنس کرنے پر آپ کو صرف چند سامعین ملتے ہیں،جب کہ سوشل میڈیا کے توسط سےآپ لامحدود سامعین تک پہنچ سکتے ہیں۔میں اپنے طلبا سے بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ اپنی ویڈیو بنائیے اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیجئے،سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیجئے۔اس سے دور دور تک آپ کی رسائی ممکن ہو جائے گی، اور آپ کو یہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا کہ کوئی آئے تو ہم انہیں اپنی داستان سنائیں۔

awazurdu

اپنی پہچان نہ بھولئے

سید ساحل آغا نے کہا کہ زندگی میں کتنے ہی بلند مقام پر پہنچ جائیں،اپنی تاریخ کو مت بھولیے،اپنے ماضی کو مت بھولئے، وہ بہت ہی خوبصورت تھا،اگر کوئی پیڑ  بلندی پر پہنچ کر اپنی جڑیں بھول جائے تو آپ اپنی موت مر جاتا ہے،بلندی پر پرواز کرنے والے پرندے کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسے  لوٹ کر زمین کی طرف ہی آنا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے سنہ 2017-2018 میں روس میں کلچر امبیسڈر کے طور پر اس بات کا اندازہ کیا کہ  ہماری تہذیب ہمارا شناختی کارڈ ہے۔دوسروں کی تہذہب بھی بہت اچھی ہے، لیکن اگر ہم دوسرے کے جیسے ہو جائیں گے تو ہم ختم ہو جائیں گے، ہماری تہذیب ختم ہوجائے گی۔اپنی شناخت کو بچا کر رکھیں؛ وہی آپ کی دنیا میں ایک الگ  پہنچان ہے۔اپنی تاریخ کو یاد رکھیں، اپنے گزرے ہوئے وقت کو یاد رکھیں۔اس سے سیکھتے رہیں۔ہم سے پہلے لاکھوں دنیا میں آکر چلے گئے ہیں۔جنہوں نے زندگی گزاری ہے،بات یہ ہے کہ ابھی ہم ہیں کل نہیں رہیں گے۔ہمیں لگتا ہے سب کچھ ایسا ہی تھاجیسا ہم دیکھ رہے ہیں، جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے، ہم سے پہلے بہت سے لوگ گزرے ہیں، ان کو پڑھئے اور سمجھنے کے دوران آپ کو اندازہ ہوگا زمانہ میں بہت زیادہ تبدیلی ہوئی ہے، یہاں تک پہنچنے کے دوران بہت سے ارتقائی مراحل طے ہوئے ہیں۔

پیدائش اور تعلیم

داستان گو سیدساحل آغا قومی دارالحکومت نئی دہلی کے ایک پڑھے لکھے خاندان میں سنہ 1982 میں پیدا ہوئے  ۔

انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے گریجویشن کیا اورShri Ram Centre Of Performing Art دہلی سے اداکاری میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا ہے۔ وہ اردو زبان کے سینئر صحافی سید منصور آغا کے صاحبزادے ہیں۔

جدت پسندی

قصہ یا کہانی سنانے کے کئی انداز ہیں جس میں سے داستان  گوئی بھی ایک ہے۔سید ساحل آغا  نے داستان گوئی کو بطور شوق اپنایا شاید اسلئے کہ  داستان گوئی کا ابتدائی تعلق صوفیوں اور خانقاہوں سے ہےجس میں ذہن کت ساتھ  روح کی غذا بھی ہے اور یہ مثال ہمیں داستان  گوئی  کے مرشد  حضرت  امیر خسرو کی داستانوں میں صاف دکھائی  دیتی ہے ۔

آپ کے اندر جدت پسندی ہے، انہوں نے 'میوزیکل داستان گوئی' کا ایک نیا تصور بھی پیش کیا ہے، جس میں ہندوستانی اوپیرا اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے ساتھ داستان گوئی کو جوڑا گیا ہے۔

انعام و اعزازات

 انہیں پردیش جوہر ایوارڈ(2017) ،حفیظ میرٹھی ایوارڈ(2017)،دہلی اقلیتی کمیشن ایوارڈ(2019) وغیرہ اعزازات سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ نیشنل میوزیم نے سنہ 2022میں گریس آف داستان گوئی(Grace of Dastangoi) کے خطا ب سے نوازا اور ان کی داستان گوئی لباس کو میوزیم کے آرکائبو میں رکھا۔

awazurdu

ونٹیج کاروں کے شوقین داستان گو

آپ کو جان کرحیرت ہوگی، جہاں سید ساحل آغا ایک بین الاقوامی داستان گو ہیں وہیں انہیں ونٹیج کاریں رکھنے کا بھی شوق ہے۔ان کے پاس فی الوقت  50 سے زائد امریکی اور برطانوی کاریں ہیں۔ان کے پاس ہندوستان کے سابق راجاؤں اور نوابوں کی کاریں بھی ہیں۔

انہیں بچپن سے گاڑیوں کا شوق رہا ہے لیکن ونٹیج کاریں جمع کرنے کا شوق انہیں اس وقت ہوا جب انہوں نے ایک پرانی کار خریدی اور انہیں اپنی اصل حالت میں مرمت کرواکر سڑک پر دوڑانے لگے۔اس کے بعد جب انہیں کوئی ونٹج کار دکھائی دیتی ہے وہ اسے خرید لیتے ہیں اور اپنی ونٹج گیلری کی زینت بناتے ہیں اور کہتے ہیں کی یہ بھی ہندوستان کی بھلائی جارہی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے جسے ہم بھول رہے ہیں کہ گزری ہوئی تاریخ کے آئینہ میں  مستقبل دکھائی دیتا ہے اور اس کے آج میں ہیں ہم اور آپ۔

 زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے