دانش صدیقی : بعد از مرگ ملا ’جرنلسٹ آف دی ایئر‘ایوارڈ

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 30-12-2021
دانش صدیقی : بعد از مرگ ملا ’جرنلسٹ آف دی ایئر‘ایوارڈ
دانش صدیقی : بعد از مرگ ملا ’جرنلسٹ آف دی ایئر‘ایوارڈ

 


ممبئی: افغانستان میں کام کرتے ہوئے جان کی بازی ہارنے والے صحافی دانش صدیقی کو ’جرنلسٹ آف دی ایئر‘ ایوارڈ 2020 سے نوازا گیا۔ صدیقی کو یہ ایوارڈ 'تحقیقاتی اور بااثر نیوز فوٹوگرافی میں کام کرنے پر' دیا گیا۔ ان کی اہلیہ فریڈرک صدیقی نے ایوارڈ وصول کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا این۔ وی رمنا نے ممبئی پریس کلب کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب میں سالانہ 'ریڈ انک ایوارڈ فار ایکسیلنس ان جرنلزم' پیش کیا۔

اس دوران چیف جسٹس نے دانش صدیقی کو یاد کیا اور کہا، "وہ جادوئی آنکھ والے آدمی تھے اور اس دور کے معروف فوٹو جرنلسٹ میں شمار کیے جاتے تھے۔ جنگ کا احاطہ کرنے والے نامہ نگاروں کا کام خطرات سے بھرا ہوا ہے۔افغانستان میں صدیقی کی موت نے ایک بار پھر جنگی علاقوں میں صحافیوں کے لیے مناسب حفاظتی پروٹوکول اور سیکیورٹی کے معاملے کو دکھادیا ہے۔

دانش صدیقی نے کافی عرصہ ممبئی میں کام کیا تھا۔ بعد میں اس نے نئی دہلی میں کام کرنا شروع کیا تھا اور وہ نیوز ایجنسی رائٹرز کے چیف فوٹوگرافر تھے۔ دانش صدیقی کو روہنگیا اور شہریت مخالف قانون کی تحریک سے لے کر کوویڈ 19 اور افغانستان کی خانہ جنگی تک کی ان کی بہترین تصاویر کے لیے اعزاز دیا گیا۔

افغانستان میں ملا زخم

افغانستان میں  پچھلے چند ماہ کے دوران جو کچھ ہواہے وہ  تاریخ کا حصہ ہے ۔ مگر افغانستان میں طالبان کی واپسی کے دوران  ہندوستان کو کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی اس کا اندازہ نہیں تھا ،جب دانش صدیقی کی ہلاکت کی خبر آئی تو ملک  ہل گیا تھا۔ دل والوں کی دہلی رو پڑی تھی اورتعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو غمزدہ کرگئی تھی۔

  ایوارڈ یافتہ فوٹو گرافر دانش صدیقی کی افغانستان کے قندھار میں طالبان کے ہاتھوں ہلاکت نے ہر کسی کو نہ صرف جھنجھوڑ دیا بلکہ افغانستان میں نازل ہورہی طالبان نامی آفت کے خطرے کی نوعیت کی جھلک بھی دکھا دی تھی۔

دانش کی کہانی  

 دانش صدیقی کوئی معمولی فوٹو گرافر نہیں تھے۔ ان کے کیمرے نے ایسے لاتعداد لمحات کو قید کیا تھا جنہیں دیکھ کر ہر کوئی دنگ رہ گیا تھا۔ کسی تصویر نے درد بیان کیا ،کسی تصویر نے کرب ظاہر کیا،کسی تصویر نے دہشت کو عیاں کیا،کسی تصویر نے انسانی المیہ کا نمونہ پیش کیا۔ایسی تصویریں جنہوں نے کہیں سماج کی بے حسی کو ننگا کیا تھا تو کہیں حکومت کی نا اہلی کو۔ کہیں انتظامیہ کی بے توجہی کو۔

awazurdu

قندھار میں دانش صدیقی کے کیمرے سے لی گئی آخری تصویر۔جس میں ایک زخمی افغان فوجی کو فرسٹ ایڈ دی جارہی ہے 

 جنگوں سے تحریکوں اور وبا تک

 دانش صدیقی 19 مئی 1983 کو پیدا ہوئے تھے۔ دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے ماس کمیونی کیشنز میں ماسٹر ڈگری کے بعد وہ صحافی بن گئے تھے۔رائٹرز سے وہ 2010 سے وابستہ تھے،وہ اپنے پیشہ کے لئے ایک جنون رکھتے تھے۔انہوں نے اپنے کام کے لئے شہرت کمائی۔

 دانش صدیقی اس سے قبل افغانستان اور عراق میں جنگیں ، روہنگیا بحران ، ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز مظاہرے اور ہندوستان این آر سی کے ساتھ کورونا وبا کے دوران بھی اپنے کیمرے کو ناقابل بیان لمحات کا گواہ بنایا تھا۔

awazurdu

کورونا کی پہلی لہر کے دوران ایک شمشان کی تصویر جو دانش صدیقی کے کیمرے میں قید ہوئی تھی

 مشن روہنگیا کا ہیرو

 وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جس کو میانمار کے روہنگیا مہاجر بحران کی دستاویز کرنے کے لئے 2018 میں فیچر فوٹو گرافی کے لئے پلٹزر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا ، ججز کمیٹی کے ذریعہ یہ سلسلہ "حیران کن تصاویر" کے طور پر بیان کیا گیا تھا جس نے روہنگیا مہاجرین کو میانمار سے فرار ہونے میں درپیش تشدد کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا تھا۔

awazurdu

روہنگیا خاتون کی ایک المناک تصویر۔ جس نے دانش صدیقی کو ایوارڈ کا حقدار بنایا تھا

کہانی کے پیچھے کے چہرے

 دوست اور ساتھی ان کو ایک ایسے شخص کے طور پر یاد رکھیں گے جس نے اپنی ہر اسٹوری کے لئے تحقیق کی۔کسی بھی موضوع پر کام سے قبل بھرپور تحقیق کی اور ہمیشہ اس خبر میں پھنسے لوگوں پر توجہ دی۔ یہاں تک کہ بریکنگ نیوز میں بھی وہ ایک کہانی کو انسانی شکل دینے کے بارے میں سوچتے تھے ، اگر آپ ان کے فوٹوز کو دیکھیں گے تو اس کا احسا س ہو جائے گا۔ دہلی کےدنگے کے ساتھ کورونا کی لہروں کے دوران ان کی تصاویر نے سب کو حیران کردیا تھا۔

دانش نے کہا تھا ۔

میں نے نوے فیصد فوٹوگرافی میدان میں تجربے سے سیکھی ہے’’ دانش صدیقی کے یہ الفاظ افغانستان میں ان کی موت سے سچ ثابت کئے۔وہ میدان جنگ میں ہی شہید ہوئے۔ اپنی پیشہ ورانہ ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔کچھ سیکھتے ہوئے ہی موت کو گلے لگا لیا۔

 دانش صدیقی نے کہا تھا کہ‘‘مجھے سب سے زیادہ لطف آتا ہے ،جب کسی بڑی اسٹوری کے انسانی چہرے کو اپنے کیمرے میں قید کرتا ہوں۔میں عام آدمی کے لئے شوٹ کرتا ہوں جو ایسی جگہ سے کہانی دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتا ہے جہاں وہ خود پیش نہیں ہوسکتا ہے’’۔

موت سے کیا ڈرنا

دانش صدیقی کا افغانستان میں ہونا بڑی بات نہیں ،بلکہ قندھار میں ہونا ،ان کی بہادری کا نمونہ تھا۔ قندھار جنگ افغانستان سے قبل طالبان کا سب مضبوط قلعہ تھا۔انہیں اس ب ات کا احساس تھا کہ وہ بڑے خطرناک علاقہ میں ہیں۔ 

موت سے دو دن قبل ہی 13 جولائی کو ، دانش صدیقی نے ٹویٹ کیا تھا کہ وہ جس فوجی گاڑی حموی میں سفر کررہے تھے، اس طالبان نے حملہ کیا تھا۔راکٹ گرینڈ ان کی گاڑی کے پچھلے حصہ پر لگا تھا۔ 

اس سے قبل جمعہ کے روز ، دانش صدیقی نے رائٹرز کو بتایا کہ وہ افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے مابین جنگ میں پھنس گیا تھا۔اس کے بازو میں چوٹ بھی لگی تھی۔دوسرا اور جان لیوا حملہ سنیچر کی صبح کو ہوا جب وہ مقامی دکانداروں سے بات کر رہے تھے۔

awazurdu

دانش صدیقی کی فوٹوگرافی موت کا کھیل بن گئی تھی

دانش ایک نام تھا جہاں میں

 دانش صدیقی نے اپنی تیسری آنکھ کے ساتھ جتنی محنت کی تھی اتنی ہی کامیابی اور شہرت کمائی تھی۔

ان کے کام کا دائرہ لا محدود تھا۔ انہوں نے خود کو کسی محدود دائرے تک نہیں رکھا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی تصاویر مختلف میگزین ، اخبارات ، سلائیڈ شوز اور گیلریوں میں بڑے پیمانے پر شائع ہوئی ہیں۔

awazurdu

افغانستان میں دانش صدیقی کی فوجی گاڑی کے آگے چل رہی بکتر بند گاڑی پر حملے کا منظر

جن میں نیشنل جیوگرافک میگزین ، دی نیویارک ٹائمز ، دی گارڈین ، واشنگٹن پوسٹ ، وال اسٹریٹ جرنل ، ٹائم میگزین ، فوربز ، نیوز ویک ، این پی آر ، بی بی سی ، سی این این حہ شامل ہیں۔ الجزیرہ ، ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ ، دی اسٹریٹ ٹائمز ، بینکاک پوسٹ ، سڈنی مارننگ ہیرالڈ ، دی ایل اے ٹائمز ، بوسٹن گلوب ، دی گلوب اور میل ، لی فگارو ، لی مونڈے ، ڈیر اسپیگل ، اسٹرن ، برلنر زیتونگ ، دی انڈیپنڈنٹ ، دی ٹیلی گراف ، گلف نیوز ، لبریشن کے ساتھ مزید بہت ساری اشاعتیں شامل ہیں ۔

ایک باپ کی نظر میں 

دہلی میں ان کے والد پروفیسر اختر صدیقی نے  بیٹے کی موت پر کہا تھا کہ دانش نہایت ہی فرض شناس آدمی تھا۔ وہ اپنے کام کے تئیں نہایت پر عزم تھا۔

ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ سماج نے اسے یہ مقام دیا ہے تو اس کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی سماج تک پوری ایمانداری کے ساتھ سچائی اور حقیقت کو پہنچائے۔ وہ وہی کرنے گیا تھا اور بس اس کا وقت آگیا تھا۔پروفیسر اختر نے کہامیں اس کے علاوہ کیا کہوں کہ وہ، وہاں اپنا کام کر رہا تھا۔اس سے پہلے بھی دانش نے افغانستان سے رپورٹ کی تھیں اور وہ عراق و میانمار سے بھی رپورٹنگ کر چکا ہے۔

اب ان کی خدمات کو سراہا جارہا ہے ۔یاد کیا جارہا ہے کیونکہ صحافتی برادری کے لیے اس قسم کی موت کو بھلا پانا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ اس کا جوش اور جذبہ اب ایک مثال ہے۔