داراشکوہ کے ہم عصر صوفیا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-03-2023
داراشکوہ کے ہم عصر صوفیا
داراشکوہ کے ہم عصر صوفیا

 

فیاض احمد 

داراشکوہ کسی ناخواندہ شہزادے کا نام نہیں ہے بلکہ علم و معرفت کے حوالے سے آل تیمور میں کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ اس کی تصنیفات اس کے علم وفضل کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ اس کی سب سے مشہور سوانحی تصنیفات سفینتہ الاولیا اور سکینہ الاولیا اس کی خوش فکری اور سلامتی عقیدہ پرشاہد عدل ہیں، سفینتہ الاولیا جو اس کی پہلی علمی کاوش ہے، اس میں اس نے آنحضرتؐ، خلفائے راشدین اہل بیت اطہار، ازواج مطہرات، اَئمہ دین اور اولیائے کا ملین کے احوال بیان کیے ہیں اور یہ احوال جامع ومستند ہونے کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے عقیدہ و فکر سے پوری طرح مطابق ہیں۔ جن سلسلۂ تصوف کے منتسبین کو اس کتاب میں متعارف کرایا گیا ہے اس میں سلسلہ قادریہ، چشتیہ،نقشبندیہ، سہروردیہ اور کبرویہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ صوفیہ کا ایسا جامع اور مختصر تذکرہ ہے، جس کی دوسری مثال اسلامی کتب خانے میں نہیں ملتی ہے اور کئی درجن ایسے تابعی اورتبع تابعی وغیرہ صوفیا و صلحا کا ذکر کیاہے جو کسی سلسلے میں شامل نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں سترہ عدد صوفیات عارفات کا بھی تذکرہ شامل ہے۔

سکینتہ الاولیامیں داراشکوہ نے حضرت میاں میر لاہوری، ان کے طریقے اور ان کے خلفا کا ذکر کیا ہے۔ ان کے طریقے پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

حضرت میاں جیورحمۃ اللہ علیہ حضرت سید الطائفہ شیخ حنید قدس اللہ سرہ اور حضرت غوث الثقلین قطب ربانی محبوب سبحانی شاہ عبدالقادر جیلانی کے مطابق شرع شریف کی پیروی کرتے تھے۔

جو شخص شریعت کی پیروی کو اپنے ممدوح کی مدح کا دارومدار قرار دے رہا ہو، اتباع شریعت اور اس کی دعوت کے لیے معروف حضرت جنید اور شیخ عبدالقادر سے اپنے ممدوح کا مقارنہ کر رہا ہو اس کی بے راہ وروی اوراس کے الحاد کے ثبوت کے لیے زیادہ مؤقر دلائل کی ضرورت ہے، اس کے مخالفین کے دعوے اور سرکاری دستاویزیں اس کام کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اسی کتاب کے باب سوم کی ابتدا کرتے ہوئے داراشکوہ رقمطراز ہیں کہ:

’’جس طرح حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کے سلسلے کو تمام سلسلوں پر فضیلت ہے، اسی طرح ہمارے شیخ کا طریقہ صلاح، تقوی، زہد، ورع، ترک، تجرید و تفرید، سیر وسلوک، فتوح وکشائش، اوضاع وافعال، اطوار واقوال اور اشغال میں دوسرے مشائخ قادریہ سے مستشنیٰ اور ممتاز ہے۔ ہر امر میں ان کے طریقے کی بنا احادیث صحیحہ اور کلام مجید پر ہے ۔

یہ دعوی بھی محل نظر ہے کہ وہ آخری عمر میں الحاد کا شکار ہوئے،کیونکہ اٹھائیس سال کی عمر میں انھوں نے سکینۃ الاولیا کی تصنیف 1642 میں کی اور 1648 تک اس میں اضافہ کرتے رہے۔ اس کتاب میں اس نام نہاد الحاد کا کوئی اثر نظر نہیں آتا ہے۔ اس کے بعد اسے دس گیارہ سال کی زندگی ملی جس کا بیشتر حصہ جنگ وجدال اور فرار اور تلاش پناہ میں گزرا۔

داراشکوہ کا ایک مطبوعہ دیوان بھی ہے اس میںبھی کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کے الحاد کی صراحت کرتی ہو، البتہ اس کی غزلیات و رباعی کا ہر شعر وحدت ابوجودی فکر میں ڈوباہوا ہے۔

داراشکوہ کی اگلی اہم تصنیف مجمع البحرین ہے جس میں دارا نے اسلام اور ہندوازم کا تقابلی مطالعہ کیا ہے اور دونوں مذاہب کے مشترک عناصر کو تفصیلی طور پر ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کی ابتدا حمد ونعت او رمنقبت آل اصحاب سے ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ کتاب تھی جس پر علما نے الحاد کا فتوی دیا تھا اور دعوی کیاتھا کہ یہ کتاب اسلام اور ہندومذہب کو مساوی قراردینے کی نیت سے لکھی گئی۔ اس کتاب کے بارے میں یہ تاویل بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب برادران وطن کی تالیف قلب اور انھیں اسلام سے قریب کرنے کے لیے لکھی گئی تھی۔ اس سے ملتا جلتا کام بہت سے صوفیا نے کیا ہے۔

داراشکوہ کی ایک اہم تصنیف حسنات العارفین کے نام سے ہے یہ کتاب شطحیات داراشکوہ کے نام سے بھی معروف ہے۔ اس کتاب میں دارانے صوفیا کی شطحیات یا جذب کے حالات میں کہے گئے اقوال کی شرح اور تفسیر بیان کی ہے۔ کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ

کیونکہ میں سالکوں کی موجودہ کتابوں سے غیر مطمئن رہا ہوں اور کبھی کبھار اپنی بے خودی کی حالت میں ایسے الفاظ کہہ جاتا ہوں جس میں اعلی سچائیاں ہوتی ہیں، تو بعض بدفطرت اور غیر مخلص لوگ اپنے کھوکھلے علم کی وجہ سے مجھ پر طنز کرتے ہیں، بدعتوں کے حامل ہونے کا الزام لگاتے ہیں… اس پر میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں ممتاز اور مقدس ہستیوں کے ان اقوال کو جنھیں شطحیات کہا جاتا ہے، تحریر میں لائوں تاکہ وہ لوگ بھی قائل ہوسکیں جو حضرت عیسی کے بجائے دجال، حضرت موسی کے بجائے فرعون اور حضرت محمدؐ کے بجائے ابوجہل کا مشرب اختیار کیے ہوئے ہیں۔‘‘

داراشکوہ کے بارے میں سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی اس کی کتاب مجمع البحرین اور دارا کے ذریعے کرائے جانے والے سنسکرت کتابوں کے ترجموں کے حوالے سے ہوئی ہے، جب کہ داراشکوہ اس نوعیت کا کام کرنے والاکوئی پہلا شخص نہیں تھا اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی کئی علما وصوفیا نے اس نوعیت کے کام کیے ہیں جن میں ایک بڑا نام میر عبدالواحد بلگرامی کا ہے۔ (1509 1608 -)جن کی وفات دارا کی پیدائش سے صرف سات سال پہلے ہوئی، ان کی ایک تصنیف ہے حقائق ہندی، یہ ایک بے حد دلچسپ کتاب ہے۔ اس میں تین ابواب ہیں۔

دھروپد، وشنوپد اور تیسرا سنسکرت کے مختلف ومتفرق اشلوکوں پر مبنی ہے، یہ تمام اشلوک کرشن بھکتی پر مبنی ہیں۔ حضرت بلگرامی نے ان اشلوکوں اور نغمات کی صوفیانہ توجیہ کی ہے اور صوفی فکر وعقیدے کے مطابق ان نغموں کی تفسیر بیان کی ہے بلکہ محفل سماع میں ان اشلوکوں کو پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے، پروفیسر فرانسسکا اورسینی نے مجلہ کلچر اینڈا سرکویشن میں کرشنا مرد حق(کرشنا از دی ٹروتھ آف مین ) کے عنوان سے اس کتاب کا تجزیہ کیا ہے۔

یہ وہی کام ہے جسے دارا نے مجمع البحرین یا اپنے ترجموں میں کرنا چاہا ہے، بلکہ حضرت بلگرامی کا کام دارا کے کام سے بھی آگے کی چیز ہے۔ لیکن شیخ عبدالواحد بلگرامی کی عظمت و رفعت کا آسمان ان کے اس کام سے ذرا بھی غبار آلود نہ ہوا،بلکہ اسے ان کی صوفی فکر کا عکاس قرار دیاگیا۔ ان کے معاصرین ومتاخرین میں سے کسی نے اس کام کے حوالے سے ان پرانگشت نمائی نہیں کی۔

عہد دارا چونکہ عموماً سکون واستقرار کا دور تھا اس لیے اس میں اسلامی علوم و فنون کا بھی فروغ ہوا اور تصوف و سلوک نے بھی خوب ترقی کی۔ عہد دارا میں تصوف کی سب سے بڑی شخصیت حضرت میاں میر لاہوری متوفی 1045ھ/ 1635 کی ہے جن کے سبب سلسلہ قادریہ کو اس عہد میں زبردست عروج حاصل ہوا اور ساتھ ساتھ معتدل اسلام کو بھی تقویت ملی۔

داراشکوہ حضرت سے والہانہ عقیدت رکھتا تھا، جس کا اظہار اس نے سکینۃ الاولیامیں جابجا کیا ہے۔ اس کتاب میں اس نے حضرت میاں میر کی حیات وکرامات اور آپ کے ارشادات کو جمع کیاہے۔ دارا نے اس کتاب میں ایک ایسا واقعہ لکھا ہے جو اس عہد کے بدلتے زاویوں کی نشاندہی کرتا ہے، اور اس میں جاری فکر ی کشاکش کو ظاہر کرتا ہے۔ اس عہد کے سب سے بڑے معقولی عالم ملا عبدالحکیم سیالکوٹی،  جو مجددی فکر کے حامل تھے بادشاہ وقت کی رفاقت میں میاں میر سے ملنے آئے حضرت میاں میر خدا تک رسائی کے طریقوں پرگفتگو فرمارہے تھے، اس دوران آپ نے فرمایا کہ جب سالک پر عالم ملکوت منکشف ہوجاتا ہے تو اس کا شیخ اسے جنگل بھیج دیتا ہے تاکہ وہ وہاں یکسوئی سے یاد الٰہی کرسکے، اس کوسن کر علامہ سیالکوٹی نے اعتراض کیا کہ اس طرح تو اس کی نماز باجماعت ترک ہوجاتی ہے، میاں میر نے اس اعتراض کا مفصل جواب دیا۔ اس اعتراض اور اس کے جواب سے اس عہد کی علمی وفکری صورت حال کا اندازہ ہوتا ہے، اور اس کشمکش کے وجود کا پتہ چلتا ہے جو عہد دارا میں کمزور تو ہوئی تھی لیکن خاصے آب وتاب کے ساتھ باقی تھی، اور اس اعتراض نے،بقول شیخ اکرام’’آگے چل کر داراشکوہ اور عالمگیر کی مخالفت کو چمکادیا‘‘۔

حضرت میاں میرکے اندر خلق خدا کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، اور آپ ایک بے حد وسیع المشرب بزرگ تھے۔ داراشکوہ آپ کے فکر وسلوک سے بے حد متاثر تھا۔ حضرت میاں میر خدمت خَلق کا پیکر اور حُسن خُلق کا مجسم نمونہ تھے۔ داراشکوہ نے آپ کے اخلاق عالیہ کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے، لکھتے ہیں کہ

’’ابو جعفرحداد کہتے ہیں:اگر عقل مرد کی صورت میں ہوتی توجنید کی صورت میں ہوتی۔ اور اگر اخلاق مرد کی صورت میں ہوتا تو حضرت میاں جیوکی صورت میں ہوتا۔‘‘

حضرت میاں میر کے سکھ مذہب کے گروئوں کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے جو آپ کی صلح جوئی کے مسلک کی کھلی دلیل ہیں۔ ’’صلح کن با خاص عام‘‘ کے طریقے نے آپ کو ہر دل عزیز بنادیا تھا۔ جب گروارجن داس نے دربار صاحب بنانے کا ارادہ کیا تو اس کی بنیاد ڈالنے کے لیے آپ کو مدعو کیا اور مشہور روایت کے مطابق آپ نے امرتسر کے گرودوارہ (باب شیخ ) کی بنیاد ڈالی جواب گولڈن ٹمپل کے نام سے جانا جاتا ہے۔

عہددارا کے ایک اور بڑے صوفی ملا بد خشی تھے جن سے داراشکوہ مرید تھا۔ یہ حضرت میاںمیر کے مرید وخلیفہ تھے اور زبردست وجودی صوفی تھے، داراشکوہ سکینتہ الاولیا میں لکھتے ہیں

’’اس فقیر کو ان کی غلامی اور ارادت کی نسبت حاصل ہے آپ کا اسم مبارک شاہ محمد ہے، حضرت میاں جیو رحمۃ اللہ علیہ انھیں محمد شاہ کہتے تھے او رحضرت کے اصحاب و معتقدین انھیں حضرت اخوند کہہ کر خطاب کرتے ہیں ۔

 آپ کی شخصیت بڑی پرکشش تھی کثرت مجاہدات نے چہرے کو بہت منور بنادیا تھا۔دوسرے مذاہب کے ہم فکر لوگوں سے اچھے روابط رکھتے تھے، اور ان پر اچھا اثر ڈالتے تھے۔ ان کے ایک شعر           ؎

پنجہ با پنجۂ خددارم

من چہ پروائے مصطفی دارم

پر علمائے کشمیر نے ان کے کفر کا فتوی دیا۔ شاہجہاں ان کے خلاف کارروائی بھی کرنا چاہتا تھا لیکن حضرت میاں میر کے کہنے سے اپنا ارادہ ملتوی کردیا۔ان کے معتقدین اس شعر کی تاویل کرتے ہیں ان کے خیال میں ’پنجہ با پنجۂ خدادادم‘، ’یداللہ فوق ایدیہم ‘ کافارسی ترجمہ ہے۔ اور رئوف ورحیم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ظلم وجفا کا ڈر نہیں ہے۔

عہد دارا کی ایک نامور صوفی شخصیت حضرت شیخ عبدالرشید جونپوری متوفی1083ھ/1672 کی بھی ہے۔ یہ مشہور عالَم جو نپوری عالم، فلسفی، متکلم او رادیب ملا محمود جونپوری کے معاصر اور رفیق درس تھے اور انھیں کے درجے کے عالم بھی تھے البتہ ان پر تصوف وسلوک کا زیادہ غلبہ تھا۔ درس نظامی میں شامل کتاب مناظرۂ رشید یہ آپ کے مشہور علمی کاموں میں سے ایک ہے۔ محمد صالح لکھتا ہے کہ

’’آپ اہل دنیا سے گریزاں اور ان کی ملاقات سے متنفر ہیں بے نیازی اور استغنا ان کا شیوہ ہے۔ لوگوں سے فتوحات یا نذریں بالکل نہیں لیتے ہیں، اور دنیا والوں سے بالکل نہیں ملتے ہیں۔ ایک بار بادشاہ (شاہجہاں ) نے ان سے ملنے کی خواہش کی لیکن وہ زاہد کامل ہر گزاپنے گوشۂ عزلت سے نہ نکلا۔

عہد دارا کے طبقۂ علما میں علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی کے بعد سب سے زیادہ شہرت ملا محمود جونپوری کو حاصل ہوئی۔ یہ علوم عقلیہ اور نقلیہ دونوں میدانوں کے شہسوار تھے۔ ہندوستان میں یونانی فلسفے پر سب سے بڑا کام ’الشمس البازغۃ‘ ان کی یادگار ہے۔ وہ ایک زبردست منطقی، فلسفی او رمتکلم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زبردست اور صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ درحقیقت ملا محمود جونپوری ایک جامع کمالات ہستی تھے۔

ملامحمود جونپور ی اور دیوان عبدالرشید کے سبب جونپور ملک کا سب سے بڑا علمی مرکز بن گیا۔ صاحبقران شاہجہاں اسے ’شیراز ماست ‘ کہتا تھا۔ علامہ شبلی نعمانی کا خیال ہے کہ ’’علامہ تفتازانی اور سید شریف جرحانی کے بعد اس پائے کے دو علما کبھی اکٹھا نہیں ہوئے۔ عہددارا کے ایک اور عالی مرتبت عالم دین اور مدرس ملا عبدالسلام لاہوری متوفی 1628 تھے جو مشہور منطقی عالم فتح اللہ شیرازی کے شاگرد تھے، لاہور میں ساٹھ سال تک درس و تدریس کی بساط بچھائے رکھی۔ ان کے شاگردوں میں حضرت محب اللہ الہ آباد ی اور نابغۂ اودھ عبدالسلام دیوی جیسے عباقرۂ علم تصوف شامل ہیں۔

عہددارا کی ایک اور صوفی شخصیت جس کے ذکر کے بغیر نہ صرف عہد دارا کے تصوف بلکہ برصغیر ہندوپاک کے تصوف کا تذکرہ نامکمل رہے گا،  وہ شخصیت ہے حضرت محب اللہ الہ آبادی متوفی 1648 کی۔آپ ہندوستان میں نظریہ وحدت الوجود کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔ سلسلہ چشتیہ سے تعلق تھا، اور شیخ ابو سعید گنگو ہی صابری چشتی متوفی 1639 سے بیعت تھے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی متوفی 1240 کی تصانیف نوک زبان پر رہتی تھیں۔ تسویہ کے نام سے فصوص الحکم کی شرح لکھی جو بے حد مشہور اور متنا زع فیہ ہوئی۔ داراشکوہ ان سے بڑے نیاز مندانہ تعلقات رکھتا تھا۔ قیام الہ آباد کے دوران اس نے حضرت کی صحبت سے اکتساب فیض بھی کیا۔ اپنے ایک خط میں داراکو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’فقیر کجاونصیحت کجا، حق آنست کہ رفاہیت خلق خدا دامن گیر خاطر حکام باشد، چہ مومن چہ کافر کہ خلق خدا پیدائش خداست۔

اس عبارت سے ان کے مسلک تصوف کی وضاحت ہوتی ہے۔ اسے اس تناظر میں دیکھا جائے کہ اس وقت ایک طبقہ غیر مسلم سے امتیازی سلوک کا مطالبہ کر رہا تھا۔ عالمگیر کی رائے حضرت کے بارے میں اچھی نہ تھی، اس نے تسویہ کو نذر آتش کرنے کا حکم صادر کیاتھا۔

 سرمدشہید متوفی 1661 بھی عہد دارا کی ایک نمائندہ شخصیت تھی۔وہ آرمینین یا یہودی اصل تھے، سرمد کے بڑے مقربین میں تھے، اور اس کے ہم مشرب بھی تھے۔ سرمد کو اپنے عہد میں بڑی قبولیت عام حاصل تھی، ابو الکلام آزاد نے لکھا ہے کہ پورا شاہجہان آباد اس کا معتقد تھا، لہذا محض عریانیت کی بنیاد پر اسے قتل کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ مستوں اور قلندروں سے پوری دہلی بھری تھی اور ان میں سے کئی عریاں رہتے تھے۔

سرمد وحدت الوجودی فکر میں سرشار تھے، لہذا فقہا کے لیے ان کے دیوان سے الحادی عناصر کی حصولیابی چنداں مشکل نہ تھی، لیکن جب دربار میں اس کے قتل کا محضر تیار ہورہا تھا تو اورنگزیب نے اس سے پوچھاکہکیا تمھیں نے دارا کو نوید سلطنت دی تھی ؟کہا  ہاں! اور وہ نوید پوری طرح سے درست بھی نکلی،اسے ابدی سلطنت حاصل ہو گئی ہے۔ جہاں عالمگیر کے سوال سے قتل کے حقیقی مقصدکا اظہار ہوتا ہے وہیںدارا کے مقام رضا کا بھی پتہ چلتا ہے  اور رسم دار ورسن کو از سرنو زندہ کرنے کے اس کے عزم کا بھی سراغ ملتا ہے۔

مولانا ابو الکلام آزاد نے درست ہی لکھا ہے کہ

’’ ایشیا میں ہمیشہ پالیٹکس مذہب کی آڑ میں رہا ہے، اور ہزاروں خونریزیاں جو پولیٹیکل اسباب سے ہوئیں، انھیں مذہب کی چادر اڑھادی گئی

دارا شکوہ ایک صاحب ذوق صوفی تھا، ممکن ہے کہ اس سے تعبیرات میں کچھ غلطیاں ہوئی ہوں لیکن وہ ایک خوش عقیدہ  خوش فکر اور خوش بیان انسان تھا،جس اعلی انسانی اقدار کا وہ حامل تھا اس کی معنویت ہر دور میں رہی ہے اور آج کچھ زیادہ ہے۔اگر ہندوستاں جنت نشان کا زمام اقتدار اسے مل گیا ہوتاتو اس کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے حیات سرمد میںدارا کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے

سلسلہ مغلیہ میں دارا شکوہ ایک عجیب طبیعت و دماغ کا شخص گزرا ہے، اور ہمیشہ افسوس کرنا چاہیے کہ تاریخ ہند کے قلم پر اس کے دشمن کا قبضہ رہا ہے، اس لیے اس کی اصلی تصویرپولیٹکل چالوں میں چھپ گئی، وہ ابتدا سے درویش دوست اور صوفیانہ دل و دماغ کاشخص تھا۔ اور ہمیشہ فقرا اور ارباب تصوف کی صحبت میں رہتا تھا۔ اس کی بعض تحریرات جو دست و برد زمانہ سے بچ گئی ہیں بتلاتی ہیں کہ ان کا لکھنے والا بھی ذوق و کیفیت سے خالی نہیں تھا ‘‘

مفتی غلام سرور لاہوری متوفی 1890 اپنی کتاب خزینۃ الاصفیا میں دارا شکوہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’ حضرت شاہ ملا بدخشانی کا نامور مریدو خلیفہ، ظاہری و باطنی اوصاف کا جامع،بادشاہ صورت اوردرویش سیرت تھے۔ مسائل تصوف و عرفان سے بڑی وابستگی تھی۔ حضرت شیخ محمد میاں میر کی خدمت میں حاضر رہ کراخذ فیض کیا تھا۔ اپنے مرشد کے نظریہ وحدت الوجود کے زبردست حامی و مبلغ تھے