نئی دہلی/ آواز دی وائس
سپریم کورٹ نے اظہارِ رائے اور تقریر کی آزادی سے متعلق رہنما اصولوں پر غور کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کو اس بنیادی حق کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور خود پر کنٹرول (سیلف ریگولیشن) اپنانا چاہیے۔ جسٹس بی وی ناگرَتنا اور جسٹس کے وی وِشناتھن پر مشتمل بینچ، وجاہت خان نامی شخص کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی۔ خان کے خلاف مغربی بنگال سمیت کئی ریاستوں میں ایف آئی آر درج ہیں۔ اس پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" پر ایک ہندو دیوتا کے خلاف قابل اعتراض پوسٹ کرنے کا الزام ہے۔
سپریم کورٹ نے 23 جون کو خان کو 14 جولائی تک کسی بھی سزا کے خلاف عبوری تحفظ دیا تھا۔خان نے ایک اور سوشل میڈیا انفلوئنسر شرمیستا پَنولی کے خلاف ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر فرقہ وارانہ تبصرہ کرنے پر شکایت درج کرائی تھی۔
خان کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ ایسے پوسٹس کے جواب میں قابل اعتراض تبصرے نہیں کرنے چاہئیں۔ جسٹس ناگرَتنا نے کہا کہ شہریوں کو تقریر اور اظہار کی آزادی کے بنیادی حق کی اہمیت سمجھنی چاہیے۔ اگرچہ کوئی نہیں چاہتا کہ حکومت مداخلت کرے، لیکن اگر خلاف ورزی ہو تو ریاست قدم اٹھا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر تمام تفرقہ انگیز رجحانات کو روکنا ہوگا۔
تاہم، بینچ نے واضح کیا کہ اس کا مطلب سنسرشپ نہیں ہے۔
بینچ نے شہریوں کی اظہارِ رائے کی آزادی پر رہنما اصولوں کو طے کرنے پر غور کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کے درمیان بھائی چارہ ہونا چاہیے۔
بینچ نے آئین کے آرٹیکل 19(2) کے تحت تقریر اور اظہار کی آزادی پر عائد معقول پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندیاں ’’درست طور پر لگائی گئی ہیں۔ اسی دوران، عدالت نے خان کو گرفتاری سے دی گئی عبوری حفاظت کو اگلی سماعت تک بڑھا دیا اور وکیل سے کہا کہ وہ شہریوں کی اظہارِ رائے کی آزادی کے خود نظم و ضبط کے بڑے مسئلے سے نمٹنے میں عدالت کی مدد کرے۔ خان کو 9 جون کو کولکاتا پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ اس نے سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اس کے کچھ پرانے ٹویٹس کی بنیاد پر آسام، مغربی بنگال، مہاراشٹر اور ہریانہ سمیت کئی ریاستوں میں اس کے خلاف ایف آئی آر اور شکایات درج کی گئی ہیں۔
اس نے دعویٰ کیا کہ یہ ایف آئی آرز اس کی طرف سے پنولی کے خلاف درج کرائی گئی شکایت کے جواب میں کی گئی ہیں، جسے گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میں نے تمام ٹویٹس ہٹا دیے ہیں اور معافی بھی مانگ لی ہے۔
خان کے وکیل نے اس کی طرف سے کہا کہ شاید ’’اس نے جو کیا، اب اسی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
اس کے وکیل نے یہ دلیل بھی دی کہ عرضی گزار کے مطابق پہلی ایف آئی آر 2 جون کی ہے۔