چنار بک فیسٹیول : اردو تراجم، لسانی روابط اور صنفی مساوات پر بصیرت افروز مذاکرے

Story by  ATV | Posted by  [email protected] | Date 07-08-2025
 چنار بک فیسٹیول : اردو تراجم، لسانی روابط اور صنفی مساوات پر بصیرت افروز مذاکرے
چنار بک فیسٹیول : اردو تراجم، لسانی روابط اور صنفی مساوات پر بصیرت افروز مذاکرے

 



سرینگر/ نئی دہلی: نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا اور قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام جاری نو روزہ چنار بک فیسٹیول میں ملک بھر سے آئے ہوئے 200 سے زائد ناشرین اور کتب فروشوں نے شرکت کی ہے، جہاں کتابوں کے شائقین غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں کتابیں خرید رہے ہیں۔ قومی اردو کونسل (این سی پی یو ایل) کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، روزانہ فیسٹیول میں مختلف ادبی، ثقافتی اور علمی پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں۔

آج فیسٹیول کے تحت تین اہم مذاکرے منعقد ہوئے۔ پہلا مذاکرہ "ثقافتی مکالمہ: اردو تراجم کی روشنی میں" کے عنوان سے قومی اردو کونسل اور کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے اشتراک سے منعقد ہوا، جس میں پروفیسر محمد زماں آزردہ (سابق صدر شعبہ اردو، کشمیر یونیورسٹی) نے ترجمہ کے فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ترجمہ صرف الفاظ کی تبدیلی نہیں بلکہ تہذیب، اسلوب اور فکر کی منتقلی کا عمل ہے۔ انھوں نے کہا کہ علمی نثر کا ترجمہ نسبتاً آسان ہوتا ہے، جب کہ ادبی ترجمہ زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے، کیونکہ اس میں ثقافتی سیاق و سباق کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔

اسی مذاکرے میں پروفیسر شاد رمضان (سابق صدر شعبہ کشمیری، کشمیر یونیورسٹی) نے کہا کہ مؤثر ترجمہ کے لیے زبان کے محاوراتی نظام سے واقفیت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر میں ترجمے کی روایت صدیوں پرانی ہے، جس نے مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو آپس میں جوڑنے کا کام کیا ہے۔ پروفیسر شمس کمال انجم (ڈین، اسکول آف اسلامک اسٹڈیز، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی) نے عربی سے اردو میں کیے گئے تراجم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر مترجم نہ ہوتے تو ہم کئی علمی و ادبی خزینوں سے محروم رہ جاتے۔ اس مذاکرے کی نظامت ڈاکٹر محمد الطاف آہنگر نے کی۔

دوسرا مذاکرہ "لسانی روابط: اردو پر سنسکرت، فارسی اور کشمیری کے اثرات" کے موضوع پر ہوا، جس میں پروفیسر نذیر احمد ملک نے کہا کہ زبانوں کا باہمی تعامل اسلوب اور الفاظ پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، اور اردو پر سب سے زیادہ اثرات فارسی اور سنسکرت کے ہیں۔ پروفیسر اعجاز محمد شیخ نے بتایا کہ کشمیری زبان کے مخصوص الفاظ اور لہجے اردو میں رچ بس گئے ہیں، جس کی بڑی وجہ کشمیر میں اردو کی روزمرہ زبان کے طور پر موجودگی ہے۔ ڈاکٹر جہانگیر اقبال نے کہا کہ اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ برصغیر کی ایک تہذیب ہے، اور کشمیر میں اردو کا مستقبل تابناک ہے، کیونکہ یہاں اردو گھریلو اور تعلیمی زبان کے طور پر رائج ہے۔ اس نشست کی نظامت ڈاکٹر صائمہ جان نے کی۔

تیسرا مذاکرہ "اردو اور فارسی ادب میں صنفی مساوات کی وکالت" کے عنوان سے خسرو فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہوا۔ اس میں دہلی یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سید مبین زہرا اور معروف شاعرہ و ادیبہ نسرین حمزہ علی نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ اردو و فارسی ادب میں خواتین کے مسائل، حقوق اور برابری پر خاصا وقیع مواد موجود ہے، اور عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر جیسی ادیباؤں نے ان موضوعات پر جرأت مندانہ انداز میں لکھا ہے۔ مذاکرے کی نظامت نذیر گنائی نے کی۔

آخر میں نسرین حمزہ کی کتاب راکھ میں دبی چنگاری اور طہ نسیم کی کتاب ترنگا آنچل کا اجرا عمل میں آیا۔ پروگرام کے اختتام پر خسرو فاؤنڈیشن کے کنوینر ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

ان تمام پروگراموں میں بڑی تعداد میں طلبہ، اساتذہ اور اردو زبان و ادب سے محبت رکھنے والے افراد شریک ہوئے۔