سرینگر/ نئی دہلی،
نیشنل بک ٹرسٹ، انڈیا اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام جاری چنار بک فیسٹیول 2025 کے چوتھے روز بھی علمی و فکری سرگرمیوں کا سلسلہ پوری آب و تاب سے جاری رہا۔ کتاب دوست عوام اور تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نہ صرف اس فیسٹیول میں شریک ہو رہی ہے بلکہ اپنی پسندیدہ کتابوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ مختلف مذاکروں میں بھی پُرجوش انداز میں شرکت کر رہی ہے۔
آج کے نمایاں علمی پروگراموں میں پہلا مذاکرہ "ڈیجیٹل دنیا میں کتاب کلچر کا فروغ" کے موضوع پر منعقد ہوا، جس کی نظامت پروفیسر سیدہ افشانہ (نوڈل آفیسر، سی بی سی ایس، کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔ مذاکرے میں ممتاز اردو و انگریزی اسکالر پروفیسر شافع قدوائی اور کلسٹر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد مبین نے اظہارِ خیال کیا۔
پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ کتاب محض معلومات کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسا استاد ہے جو انسان کو غور و فکر، استدلال اور سوال کرنے کا سلیقہ عطا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مطالعہ ایک ایسا عمل ہے جو ہر بار نئی معنویت، تازہ زاویہ نظر اور مختلف تجربات سے ہمکنار کرتا ہے۔ اگرچہ ای-کتب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن کاغذ کی خوشبو، ورق پلٹنے کی مخصوص آواز اور ذہنی یکسوئی جیسا تجربہ صرف روایتی کتاب ہی فراہم کرتی ہے۔
پروفیسر محمد مبین نے مطالعہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ علم میں گہرائی اور گیرائی صرف سنجیدہ مطالعے سے ممکن ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو خبردار کیا کہ محض مصنوعی ذہانت (AI) پر انحصار کرنا تعلیمی نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ ان کے مطابق، بغیر محنت حاصل کی گئی معلومات دیرپا فائدہ نہیں دیتیں۔ انہوں نے طلبہ کو نصابی کتب کے ساتھ ساتھ معیاری غیر نصابی کتب پڑھنے کی تلقین کی تاکہ فکری وسعت پیدا ہو اور مختلف موضوعات پر تنقیدی سوچ پیدا ہو۔
دوسرا مذاکرہ کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ اردو اور قومی اردو کونسل کے اشتراک سے "کشمیر کی صوفیانہ روایت" کے عنوان سے منعقد ہوا، جس میں کشمیری صوفی فکر کے روحانی، سماجی اور تاریخی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔
اس نشست میں پروفیسر (ڈاکٹر) بشیر بشر (سابق ڈائریکٹر، مرکز نور، کشمیر یونیورسٹی) نے کشمیر کی قدیم رشی اور صوفی روایت پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے شیخ العالم، لل دید اور دیگر روحانی شخصیات کے افکار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان ہستیوں نے کشمیری سماج کو روحانیت، رواداری، اخلاق اور باہمی احترام کا جو سبق دیا، وہ آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
معروف شاعر و مترجم ڈاکٹر غلام نبی حلیم نے کہا کہ تصوف کشمیری معاشرت کی روح میں رچا بسا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کشمیری صوفی روایت کا بنیادی پیغام بھائی چارہ، ہم آہنگی، اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ہے۔ ان کے مطابق، صوفیانہ ورثہ نہ صرف کشمیر کی شناخت ہے بلکہ اس کے تحفظ اور نئی نسل تک منتقلی کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ اس مذاکرے کی نظامت ڈاکٹر سجاد حسین وانی (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ لسانیات، کشمیر یونیورسٹی) نے کی۔
یہ دونوں مذاکرے فیسٹیول کے علمی معیار کا مظہر تھے اور ان میں شرکاء کی کثیر تعداد نے بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ چنار بک فیسٹیول کا یہ علمی و فکری سلسلہ آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گا۔