لو جہاد قانون کو چیلنج - عرضی سپریم کورٹ میں منظور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-02-2021
سپریم کورٹ آف انڈیا
سپریم کورٹ آف انڈیا

 

ئی دہلی،17سپریم کورٹ نے لوجہاد قانون کو چیلنج کرنے والی عرضی میں جمعیۃ علماء ہند کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا ہے جمعیۃ علما ء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے جمعیۃ اسے کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین مخالف قانون کے خلاف ہماری جہدوجہد جاری رہے گی۔یہ بات جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز میں کہی گئی ہے۔

قبل ازیں کی سماعت پر عدالت نے مرکزی اور ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی آرگنائزیشن و دیگر کی جانب سے داخل کردہ اپیلوں پرآج سماعت عمل میں آئی جس کے دوران عدالت نے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سے پوچھا کہ اس معاملے میںجمعیۃ علماء ہند کا مفاد کیا ہے؟اور وہ کیوں مداخلت کار بننا چاہتے ہیں جس پر اعجاز مقبول نے انہیں بتایا کہ جمعیۃعلماء ہند ہندوستانی مسلمانوں کی ایک قدیم تنظیم ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کا تحفظ اس کے بنیاد ی مقاصد میں شامل ہے اور ہم اس معاملے میں عدالت کا تعاون کرنا چاہتےہیں۔

انہوں نے چیف جسٹس اے ایس بوبڈیے کو بتایا کہ لو جہاد قانون کے ذریعہ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے ا ور یہ سلسلہ جاری ہے لہذا مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے اس غیر آئینی قانو ن کو ختم کرنے کے لیئے داخل پٹیشن میں وہ بطور مداخلت کار بننا چاہتے ہیں تاکہ عدالت میں اس تعلق سے اپنا موقف پیش کرسکے۔ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے عدالت کو بتایا کہ سیتا پور لو جہاد معاملے میں پولس نے تین خواتین سمیت دس لوگوں کو گرفتار کیا ہے جن کے مقدمہ کی پیروی جمعیۃ علماء ہند کررہی ہے۔ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کے دلائل کی سماعت کے بعد چیف جسٹس نے جمعیۃ علماء ہند کو بطور مداخلت کار تسلیم کرلیا۔ اسی درمیان چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی تین رکنی بینچ جس میں جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم نے سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی آرگنائزیشن کو ان کی پٹیشن میں ترمیم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت دو ہفتوں کے لیئے ملتوی کردی۔

متذکرہ تنظیم نے پہلے اتر پردیش اور اتر اکھنڈ ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قانون کو چیلنج کیا تھا لیکن آج انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مدھیہ پردیش اور ہماچل پردیش ریاستوں نے بھی اسی طرز پر قانون بنایا ہے لہذا وہ ان چاروں ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قانون کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں جس کی عدالت نے انہیں اجازت دے دی۔ واضح رہے کہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی جانب سے مداخلت کار کی پٹیشن داخل کی تھی جس میں میں لکھا ہے کہ ”غیر قانونی تبدیلی مذہب مانع آرڈیننس 2020 کو اتر پردیش حکومت نے منظور ی دے دی ہے جبکہ اتر کھنڈ حکومت نے فریڈم آف ریلجن نامی قانون کو منظوری دی ہے ان قوانین کو بنانے کا مقصد ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی شادیوں کو روکنا ہے جو آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے