نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ کولکاتا کے آر جی کر میڈیکل کالج و اسپتال میں ایک ٹرینی ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعے کے بعد احتجاج میں شامل ڈاکٹروں کو تحفظ دینے کے لیے وہ کوئی ’’جامع یا وسیع حکم‘‘ جاری نہیں کر سکتا۔ جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس ستییش چندر شرما کی بنچ نے کہا کہ ایسا کوئی حکم دینا پولیس کے اختیارات میں مداخلت ہوگا۔
عدالت نے کہا کہ اس معاملے کی سماعت ’’ٹکڑوں میں‘‘ نہیں کی جا سکتی اور وہ اس کیس کو کلکتہ ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کے حق میں ہے۔ بنچ نے زبانی طور پر کہا: "ہم پہلے ہی بہت سے مسائل سے دوچار ہیں اور ان کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے لیے وہاں ہونے والے احتجاجوں کی نگرانی کرنا زیادہ آسان ہے۔ کیا ہمارے لیے دہلی میں بیٹھ کر کولکاتا میں ہونے والے مظاہروں کی نگرانی کرنا ممکن ہے؟"
عدالت نے مزید کہا: ہم ڈاکٹروں کی حفاظت کے لیے کیسے کوئی وسیع حکم جاری کر سکتے ہیں؟ پولیس کو آپ کو طلب کرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔ سپریم کورٹ نے جونیئر اور سینئر ڈاکٹروں کی ایک تنظیم کی نمائندگی کرنے والی سینئر وکیل کرونا نندی کو ہدایت دی کہ وہ کلکتہ ہائی کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تفصیلی فہرست پیش کریں۔
سماعت کے دوران کرونا نندی نے دلیل دی کہ احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کو پولیس ہراساں کر رہی ہے اور انہیں بار بار پوچھ گچھ کے لیے بلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کی اپیل کی۔ اب اس کیس کی سماعت سردیوں کی تعطیلات کے بعد ہوگی۔ گزشتہ سال 9 اگست کو آر جی کر اسپتال کے سیمینار روم سے ایک پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ڈاکٹر کی لاش ملی تھی۔
کولکاتا پولیس نے اگلے ہی دن شہری رضاکار سنجے رائے کو گرفتار کیا تھا۔ اس بھیانک جرم کے بعد پورے ملک میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور مغربی بنگال میں طویل احتجاج ہوئے تھے۔ کولکاتا کی ایک نچلی عدالت نے 20 جنوری کو ملزم رائے کو ’’موت تک عمر قید‘‘ کی سزا سنائی۔