علی گڑھ اور نئی دہلی میں قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا علی گڑھ اردو کتاب میلہ آج تاریخ ساز کامیابیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر اختتامی سیشن منعقد ہوا۔ اس کے مہمان خصوصی پروفیسر محمد گلریز تھے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق کارگزار وائس چانسلر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میلے کی بدولت علی گڑھ میں ادبی اور ثقافتی فضا میں نئی جان پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے قومی اردو کونسل اور اس کے سربراہ ڈاکٹر شمس اقبال کو مبارکباد پیش کی۔ سرسید اکیڈمی کے ڈائرکٹر پروفیسر شافع قدوائی نے بھی اس میلے کو علی گڑھ کی علمی روایت کے فروغ کے لیے اہم قرار دیا۔
قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ کتاب دوستی نوجوان نسل کی فکری بنیادوں کو مضبوط بناتی ہے اور ملک کو وکست بھارت 2047 کے خواب کی طرف لے جانے میں مدد دیتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس نو روزہ میلے کے دوران کئی ادبی اور ثقافتی پروگرام ہوئے۔ اس میلے میں ہندوستان کے مختلف شہروں سے پچاس سے زیادہ پبلشرز شریک ہوئے اور نو دنوں میں ستر لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ قومی اردو کونسل نے انیس پروگرام منعقد کیے اور کلچرل ایجوکیشن سینٹر کے ساتھ مل کر نو پروگرام کیے۔ ان پروگراموں میں علی گڑھ دہلی ممبئی لکھنؤ غازی آباد اور دیگر مقامات کے ڈیڑھ سو سے زیادہ اسکالرز دانشور اور طلبہ نے شرکت کی اور ہزاروں لوگوں نے میلے میں آکر کتابوں سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں نے ان پروگراموں کو دیکھا۔ ڈاکٹر شمس اقبال نے تمام اداروں افراد اور عملے کا شکریہ ادا کیا جن کی کوششوں سے یہ میلہ ممکن ہوا۔ اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر احمد مجتبیٰ صدیقی نے کی۔
اختتامی تقریب میں اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز مہمانِ خصوصی تھے۔ انہوں نے اردو زبان اور ادب کے فروغ کے لیے این سی پی یو ایل کی کوششوں کو دل سے سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے نے پبلشرز، مصنفین، ادبی شخصیات اور قارئین کو ایک ہی جگہ جمع کر کے واقعی قابلِ ذکر کام کیا ہے۔ پروفیسر گلریز نے کہا کہ یہ کتاب میلہ علی گڑھ میں نئی ادبی اور ثقافتی روح پیدا کرنے میں کامیاب رہا، اور اس کے لیے این سی پی یو ایل اور اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال تعریف کے مستحق ہیں۔ ان کے مطابق اس طرح کے پروگرام مطالعے کی عادت کو مضبوط کرتے ہیں اور اردو کی دیرپا ثقافتی وراثت کو بھی سہارا دیتے ہیں۔
سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر شافع قدوائی نے بھی منتظمین کی محنت کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ کتابیں صرف ذہنی وسعت نہیں دیتیں، بلکہ ایک معاشرے کی ثقافتی پہچان کو بچانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ میلہ علی گڑھ کی علمی روایت کو مزید مضبوط بنانے کی ایک اچھی کوشش ثابت ہوا ہے۔
این سی پی یو ایل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شمس اقبال نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج سب سے زیادہ ضرورت کتابوں کے کلچر کو، خاص طور پر نوجوانوں میں، دوبارہ زندہ کرنے کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مستقل مطالعہ ملک کے ’’وکست بھارت ایٹ 1947‘‘ کے مشن کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا، کیونکہ کتابوں سے جڑا رہنا ذہنی، فردی اور سماجی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے آخر میں اے ایم یو انتظامیہ، شریک پبلشرز، مصنفین، رضاکاروں اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ مستقبل میں بھی ایسے کتاب میلوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ڈاکٹر احمد مجتبیٰ صدیقی نے سیشن کی نظامت خوبصورتی سے انجام دی۔
کتاب میلے میں طلبہ، اساتذہ، محققین اور ادب دوست افراد کی بڑی تعداد موجود رہی۔ مختلف اسٹالوں پر کلاسیکی شاعری، افسانے، بچوں کا ادب، تحقیقی مضامین اور جدید موضوعات پر لکھی کتابوں کی بھرپور ورائٹی رکھّی گئی تھی۔ روزانہ ہونے والی مصنفین سے ملاقاتیں اور مباحثے اس میلے کی خوبصورتی اور اہمیت میں مزید اضافہ کرتے رہے۔
اس سے پہلے تین اہم مذاکرے منعقد ہوئے۔ پہلا مذاکرہ نئی نسل میں کتاب دوستی کے احیا کے موضوع پر تھا۔ اس میں پروفیسر صغیر افراہیم پروفیسر امتیاز احمد اور ڈاکٹر آفتاب عالم نجمی نے نوجوانوں میں مطالعے کی اہمیت پر گفتگو کی۔ ڈاکٹر حمیرا عالیہ نے بھی نوجوانوں اور مطالعے کے تعلق پر اپنے خیالات پیش کیے۔ اس مذاکرے کی نظامت زبیر خان سعیدی نے کی۔
دوسرا مذاکرہ تراجم کے موضوع پر تھا۔ اس میں پروفیسر سمیع رفیق پروفیسر محمد سجاد پروفیسر شمبھوناتھ تیواری اور ڈاکٹر معید الرحمن نے اردو میں انڈین نالج سسٹم کی اہمیت اور ہندوستانی علمی روایت تک رسائی کے مسائل پر گفتگو کی۔ اس کی نظامت ڈاکٹر احسن ایوبی نے کی۔
تیسرا مذاکرہ اردو میں انفوٹینمنٹ کے عنوان سے تھا۔ اس میں اے رحمن ڈاکٹر سعید عالم اور پروفیسر عاصم صدیقی نے فلم ڈرامہ اور تھیٹر کے ذریعے اردو کے فروغ پر گفتگو کی۔ اس سیشن کے موڈریٹر تحسین منور تھے۔
کتاب میلے کے آخری دن بھی اردو زبان اور کتابوں کے شائقین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اسکول کے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نے بھی اس دن میلے میں شرکت کی جس سے میلے کی رونق میں اضافہ ہوا۔