نئی دہلی: آج پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں اس وقت شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی جب مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے تین اہم بل لوک سبھا میں پیش کیے۔ یہ بل تھے: آئین (130 واں ترمیمی) بل 2025، مرکز کے زیر انتظام علاقے کی حکومت (ترمیمی) بل 2025، اور جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) بل 2025۔ بلوں کے پیش ہوتے ہی ایوان میں شور و غل شروع ہو گیا اور اپوزیشن کے ارکان نے بلوں کی کاپیاں پھاڑ کر وزیر داخلہ کی جانب پھینک دیں۔
ایوان میں پیدا شدہ بدنظمی کے پیش نظر اسپیکر کو کارروائی کو سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کرنا پڑا۔ اپوزیشن کی طرف سے کہا گیا کہ ان بلوں کے ذریعے حکومت نہ صرف جمہوریت کو کمزور کر رہی ہے بلکہ عوام کے حقِ انتخاب کو بھی محدود کرنا چاہتی ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے سربراہ اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے بلوں کی پرزور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سازی عوام کے منتخب نمائندوں کو غیر مؤثر بنانے کی سازش ہے۔
ان کے مطابق، یہ بل حکومت بنانے اور منتخب کرنے کے عوامی اختیار کو کمزور کرتے ہیں۔ ہنگامے کا ایک اور سبب وہ نیا بل بنا جس کے تحت اگر وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو 30 دن تک حراست میں رکھا جائے تو وہ خود بخود اپنے عہدے سے برطرف سمجھے جائیں گے۔
اس بل کو بھی امیت شاہ نے ہی ایوان میں پیش کیا، جس پر اپوزیشن نے نہ صرف شدید اعتراض کیا بلکہ حکومت پر آئینی حدود سے تجاوز کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت ان ترامیم کو ملک میں انتظامی شفافیت، احتساب اور خاص طور پر مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں مؤثر حکمرانی کے لیے ضروری قرار دے رہی ہے۔
تاہم اپوزیشن اسے وفاقی ڈھانچے پر حملہ قرار دے کر مسترد کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں آج کا دن واضح طور پر سیاسی کشیدگی اور آئینی بحران کی ایک اور جھلک بن کر سامنے آیا، جہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خلیج مزید گہری ہوتی نظر آئی۔