بنگال کااکلوتا یونانی میڈیکل کالج بند ہونے کے قریب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 07-02-2021
کالج کے اساتذہ،طلبہ اورعملہ کا احتجاجی جلوس
کالج کے اساتذہ،طلبہ اورعملہ کا احتجاجی جلوس

 

۔ میڈیکل کالج کے اساتذہ ، طلبا اور عملہ کا مسلسل دھرنا

۔ ممتاحکومت صورتحال سے بے خبر

۔ ۔کالج کا اقلیتی کردارخطرے میں

نوراللہ جاوید ۔ کولکاتا

مغربی بنگال کا واحد یونانی میڈیکل کالج و اسپتال کے اساتذہ ، طلبا اور عملہ گزشتہ 21دسمبر سے مسلسل دھرنے پر ہیں اور اس درمیان کئی مرتبہ کلکتہ کی سڑکوں پر طلبا و اساتذہ نے جلوس بھی نکالا اور ریاستی وزارت صحت کو میمورنڈم بھی دیا مگر گزشتہ 46دنوں میں نہ حکومت کا کوئی سینئر اہلکار ان سے بات چیت کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی حکمراں جماعت کا کوئی لیڈر ان سے ملاقات کرنے کےلئے آیا ہے۔جب کہ کالج کے محض ایک کلو میٹر کی دوری پر مقامی ممبر پارلیمنٹ اور مقامی ممبر اسمبلی کی رہائش گاہ ہ ہے۔اس کے علاوہ کالج کے چند کلو میٹر کی دوریوں کئی مسلم ممبران پارلیمنٹ کی رہائش گاہ ہیں مگر کوئی بھی ان سے بات چیت کرنے کو تیار نہیں ہے۔

دراصل 2008میںسابق بایاں محاذ کی حکومت نے کلکتہ یونانی میڈیکل کالج کو حکومت کی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا اور اس پر کارروائی شروع کی۔ 4دسمبر 2009کوکلکتہ یونانی میڈیکل کالج ایکٹ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا مگر اپوزیشن کے اعتراضات کے بعداسپیکر ہاشم عبد الحلیم نے بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھیج دیا ۔اسٹینڈنگ کمیٹی سے پاس ہونے کے بعد دوبارہ وزیر صحت سوریہ کانت مشرا نے 16مارچ 2010کو اسمبلی میں بل پیش کیا جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔مگر اس اس وقت کے گورنر کے آرنارائنن نے اس بل پر دستخط کرنے کے بجائے صدر جمہوریہ کے پاس بھیج دیا۔صدر جمہوریہ نے اس بل پر وزارت آیوش،وزارت لیبر اور وزارتقانون سے رائے طلب کی۔

kolkata unani medicen

 یونانی میڈیکل کالج و اسپتال کے اساتذہ ، طلباکا مظاہرہ

۔وزارت آیوش ، وزارت لیبر نے اس بل کے حق میں رائے دی جب کہ وزارت قانون نے اس بل پر اعتراض کیاکہ کالج کو کس عوض میں حکومت نے تحویل میں لیا ہے اس کا ذکر نہیں ہے۔یہ معمولی غلطی تھی جسے فوری طور اسمبلی میں ایک ترمیمی ایکٹ لاکر تصحیح کی جاسکتی تھی مگر حکومتی اہلکاروں کے رویے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوگیا اور اس درمیان 2011کا اسمبلی انتخابات آگیا اور ممتا بنرجی اقتدار میں آگئی۔ممتا بنرجی کے اقتدار کواب دس سال مکمل ہوچکے ہیں۔ مگر اب تک یونانی میڈیکل کالج کا معاملہ اب بھی معلق ہے ۔کالج کے اساتذہ اورعملہ انصاف کے حصول کےلئے جدوجہد کررہے ہیں ۔ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر محمد ایوب قاسمی نے بتایا کہ گزشتہ دس سالوں میں ہم نے حکومت کے تمام دروازے کھٹکھٹائے ، مسلم ممبر ان پارلیمنٹ ، مقامی ممبر اسمبلی و ممبر پارلیمنٹ ،ریاستی وزیر مملکت برائے صحت اور محکمہ صحت کے سینئر افسران سے ملاقات کی سبھوں نے وعدہ کیا کہ جلد سے جلد مسئلہ حل کردیا جائے گا مگر دس سال بیت گئے مگر حکومت نےکچھ بھی نہیں کیا۔

اس سے قبل حکومت نے آیوروید اور ہومیو پیتھ کے کالجوں میں اپنی تحویل میں لیا ہے ۔ڈاکٹر ایوب بتاتے ہیں کہ ہم نے بلاشرط کالج کو حکومت کی تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ہماری صرف ایک شرط تھی کہ کالج کے موجودہ عملہ کو بحال رکھا جائے گا۔جب حکومت انہی شرطوں پر دوسرے پیتھی کے کالجوں کو اپنی تحویل میں لے سکتی ہے تو پھر یونانی میڈیکل کالج کے ساتھ ناانصافی کیوں ۔کالج انتظامیہ کمیٹی کے ایک ممبر نے بتایاکہ مقامی ممبر پارلیمنٹ سدیپ بندو پادھیائے سے کالج کے وفد نے متعدد مرتبہ ملاقات کی ۔انہوں نے ایک موقع پر کالج انتظامیہ سے تحریری یقین دہانی لی کہ کالج کے حکومت کے تحویل میں لئے جانے کے بعد اقلیتی کردار کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔ہم لوگو ں نے تحریری یقین دہانی بھی کرائی کہ اقلیتی کردار کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔اس کے باوجود مقامی ممبر پارلیمنٹ نے ہمارے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔

کالج کو حکومت کی تحویل میں دینا کیوں چاہتے ہیں ؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد ایوب کہتے ہیں کہ میڈیکل کونسل کے سخت شرائط اور اخراجات میں اضافہ کا بوجھ اٹھانے کے ہم متحمل نہیں ہیں ۔ہمارے یہاں طلبا کی فیس بہت ہی کم ہے۔ حکومت کی جانب سے جو گرانٹ ملتے ہیں وہ ناکافی ہیں۔2010تک ہمیں سالانہ 70لاکھ گرانٹ ملتے تھےمگر وہ اب کم ہوکر محض 20لاکھ روپے رہ گئے ہیں ۔ایسے میں ہم کالج کیسے چلاسکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ممتا حکومت نے یونانی میڈیسن سے منھ موڑ لیا ہے۔2011سے قبل ترنمول کانگریس کے لیڈران کہتے تھے ہم انصاف دلائیں گے مگر انہوں نے جووعدہ کیا اس کو پوارانہیں کیا ۔ کلکتہ یونانی میڈیکل کالج کو حکیم سید محمد فیضان جن کا گزشہ سال دسمبر میں انتقال ہوا ہے کی پہل پرحکیم سعید احمد خان، حکیم بخشی، حکیم سلیم عظیم ،حکیم نہال احمد اور حکیم اسرارالحق کی مشترکہ کاوشوں سے 1989میں قائم کیا گیا تھا۔

protest at unani kolkata

انصاف کی تلاش میں 

کلکتہ شہر قلب میں رپن اسٹریٹ کے عبد الحلیم لین میں واقع اس کالج کی تعمیر میں عام مسلمانوں اور طب یونانی کے محبین کے چندے سے قائم کیا گیا تھا۔1994میں داخلے کا عمل شروع ہوا مگر کلکتہ یونیورسٹی سے اس کالج کو منظوری 1999میں ملی اس کی وجہ سے پہلے پیج کے طلبا کو کئی سالوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔تاہم کلکتہ یونیورسٹی سے منظوری ملنے کے بعد 2002سے مسلسل یہاں سے ہرسال ایک پیچ نکل رہا ہے ۔جوملک بھر میں طبی شعبے میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔2003سے یہ کالج مغربی بنگال ہیلتھ یونیورسٹی سے منظور شدہ ہے۔ریاست کے تمام میڈیکل کالجز اسی یونیورسٹی سے منظور شدہ ہیں اور یونیورسٹی کی نگرانی میں ہی امتحانات ہوتے ہیں ۔ کالج میں زیر تعلیم ایک طالب علم نے بتایا کہ آیورویدک اور ہیومیو پیتھ کے طلباانٹرنل شپ کےلئے جب حکومت کے اسپتالوں میں جاتے ہیں تو انہیں حکومت کی جانب سے روپے ملتے ہیں مگر کلکتہ یونانی میڈیکل کالج کے طلبا سال بھر حکومت کے اسپتالوں میں انٹرشپ کرتے ہیں انہیں کسی بھی طرح کا اسکالر شپ نہیں ملتا ہے ۔ؔ

ظاہر ہے کہ یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ کالج کو حکومت اپنی تحویل میں لے۔ کلکتہ یونانی میڈیکل کالج کے استاذ ڈاکٹر دانش ظفر جو احتجاجی مہم میں اہم کردار ادا کررہے ہیں نے کہا کہ اب ہمارے پاس احتجاج کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔کیوں کہ حکومت اور حکمراں جماعت کا کوئی بھی نمائندہ ہم سے سیدھے منھ بات کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ سابق ممبر پارلیمنٹ وسی پی ایم کے سینئر لیڈر محمد سلیم نے کہا کہ یونانی میڈیکل کالج کی تباہی بتاتی ہے کہ حکومت نے اقلیتی اداروں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔۔بائیں محاذ کے دور اقتدار میں کالج کو حکومت کی تحویل میں لینے کی کارروائی شروع کی اور ہم نے گرانٹ میں بھی اضافہ کیا اور اس کے علاوہ طب یونانی کے فروغ کےلئے یونانی کونسل قائم کیا گیا آج دونوں تباہ وبرباد ہیں ۔محمد سلیم کہتے ہیں کہ یہ حالات صرف کلکتہ یونانی میڈیکل کالج کے ساتھ نہیں ہے ممتاحکومت کا رویہ اقلیتوں کے دوسرے کالجوں کے ساتھ وہی ہے۔کلکتہ یونانی میڈیکل کالج کے معاملے پر ترنمول کانگریس کے کوئی بھی سینئر لیڈرنے بات کرنے کو تیار نظر نہیں آئے ۔