حجاب پر پابندی آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی: فیصل رحمانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 10-02-2022
حجاب پر پابندی آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی: فیصل رحمانی
حجاب پر پابندی آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی: فیصل رحمانی

 

 

آواز دی وائس، پٹنہ

کرناٹک حجاب تنازعہ کے سلسلے میں ہندوستانی کے معروف دینی ادارہ امارت شرعیہ کے امیرشریعت مولانا احمد فیصل ولی رحمانی نے کہا کہ مسلم خواتین کو ان کی ذاتی آزادی اور بنیادی حقوق کو برقرار رکھنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ شہریوں میں عدم اطمینان اور موجودہ حکومت کے تئیں عدم اعتماد پیدا کر رہا ہے۔

کرناٹک کے مختلف تعلیمی اداروں میں حجاب پر لگی پابندی اور با حجاب مسلم طالبات کو کلاس میں داخلہ سے روکنے کا معاملہ دن بدن طول پکڑتا جا رہا ہے ۔وہیں ایسا مانا جا رہا ہے کہ شدت پسند  تنظیموں کی شہ پر کالج انتطامیہ لگاتار طالبات کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ حجاب اتار کر کالج میں داخل ہوں۔

اس سلسلہ میں امارت شرعیہ (بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ ) کے  امیر شریعت  مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے اپنے مکتوب میں کہا ہے کہ ہر شخص خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اس کو آئین یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے لیے جس قسم کا لباس اختیار کرنا چاہے اختیار کرے، مسلمان خواتین بھی آئین میں دیے گئے اس حق کا استعمال کرتے ہوئے حجاب پہن سکتی ہیں۔

حجاب سے روکنا آئین میں دیے گئے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے ۔اس معاملہ میں فیصل رحمانی نے گورنر کرناٹک مسٹر تھاور چند گہلوت، وزیر اعلیٰ بسوا راج بومئی سمیت وزارت تعلیم ، حکومت کرناٹک کے چیف سکریٹری اور اپوزیشن لیڈ ر و سابق وزیر اعلیٰ کرناٹک سدا رمیا کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلم طالبات کے آئینی حقوق کو ریاست میں یقینی بنائیں اور کالج انتظامیہ کو حکم دیں کہ وہ مسلم بچیوں کو حجاب کے ساتھ کلاس میں داخل ہونے کی اجازت دیں۔

گورنر کے نام لکھے خط میں فیصل رحمانی نے لکھا کہ ‘‘آج، نوجوان مسلم طالبات کو ان کی شخصی آزادی سے محروم کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ان کا حق تعلیم سلب ہو رہا ہے، اور میں آپ سے اس تحریر کے ذریعہ درخواست کر رہا ہوں کہ آپ کرناٹک میں ان کی شخصی آزادی اور بنیادی حقوق کو برقرار رکھیں۔

کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983 کے آرٹیکل 133 (2) کو بنیاد بنا کر مسلمان طالبات کو اسکارف یا حجاب پہننے سے روکنا ، حجاب پر پابندی لگانا اور با حجاب نوجوان مسلم طالبات کو تعلیم دینے سے انکار کرنامختلف بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جن میں قانونی مساوات ، ذاتی آزادی کا حق، اپنی ذات کے لیے اختیارات کے بنیادی حقوق اور امتیازی سلوک سے روکنا شامل ہیں۔

فیصل رحمانی نے اس خط میں مزید لکھا کہ ’’آئین میں درج بنیادی حق کا آرٹیکل 21 ذاتی اور شخصی آزادیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، آرٹیکل 14 قانونی مساوات کا حق فراہم کرتا ہے، آرٹیکل 15 امتیازی سلوک سے منع کرتا ہے، اور آرٹیکل 25، ضمیر کی آزادی، ہندوستان کے شہریوں کو اپنے عقائد کی آزادانہ طور پر پیروی کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے، بلاشبہ یہ آزادیاں امن عامہ، اخلاقیات اور صحت سے مشروط ہیں۔

آئین کو تسلیم کرنے والی ذہنیت حجاب کو امن عامہ اور اخلاقیات کی علامت کے طور پر دیکھے گی۔آئین کے تحت، مسلم طالبات جو اپنے بالوں کو اسکارف سے ڈھانپنے کا اہتمام کرتی ہیں، انہیں ایسا کرنے کا پورا حق حاصل ہے کیونکہ دوسرے مذاہب کے شہری اپنی ذاتی آزادیوں اور مذہبی آزادیوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، برہمن اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے جینیو پہنتے ہیں، ہندو اپنے ماتھے پر تلک لگاتے ہیں، اور سکھ پگڑی باندھتے ہیں، یہ چند نام بطور مثال ذکر کیے گئے ہیں۔

مسلم خواتین کو ان کی ذاتی آزادی اور بنیادی حقوق کو برقرار رکھنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ شہریوں میں عدم اطمینان اور موجودہ حکومت کے تئیں عدم اعتماد پیدا کر رہا ہے۔ یہ فیصلہ بھائی چارے کے اس تصور کی مزید خلاف ورزی کرتا ہے جو ہندوستانی آئین کے دیباچے میں درج ہے۔ہمارا ملک کثرت میں وحدت کے لیے جانا جاتاہے، جولوگ اس طرح کی حرکتیں کررہے ہیں وہ ملک کی شبیہ اور اس کی روح کو نقصان پہونچا رہے ہیں-

ہم آپ کو آئین کے ذریعہ دیے گئے اختیارات سے توقع کرتے ہیں اور آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ شہریوں کو ان کے آئینی حقوق کی ضمانت دی جائے اور خلاف ورزی کی صورت میں فوری اصلاحی اقدامات کیے جائیں۔

فیصل رحمانی نے اپنے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ  متعلقہ اسکول کے حکام ذاتی آزادیوں (آرٹیکل 21)، امتیازی سلوک کی ممانعت (آرٹیکل 15) آرٹیکل 25 میں دیے گئے حقوق کی یقین دہانی کرائیں۔

طالبات کو اسکارف پہن کر اپنے حقوق کا استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔تمام چھوٹ جانے والی کلاسوں کی تلافی کے لیے اضافی کلاسیں منعقد کی جائیں۔

یہ اقدامات سماج میں مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی اور امن قائم کرنے میں بہت معاون ثابت ہوں گے اور پورے ملک میں اس سے اچھا پیغام جائےگا۔

فیصل رحمانی نے کرناٹک ہائی کورٹ سے امید ظاہر کی ہے کہ اس معاملہ پر آئینی حقوق اور دستوری روح کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیاجائے گا،انہوں نے عدلیہ پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ عدلیہ جمہوریت کا اہم ستون ہے، ایسے معاملات میں اس کی ذمہ داری اہم ہوجاتی ہے،ہمیں یقین ہے کہ دستوری اور آئینی حقوق کا تحفظ عدالت کے ذریعہ ہوگا-اور وسیع بنچ میں اس پر اہم فیصلہ کیاجائے گا۔

انھوں نے کورٹ کو مبارک باد دی ہے کہ اس نے نظم ونسق کی پاسداری اور امن عامہ کی اپیل کی ہے، آئین کے بنیادی حقوق کی وضاحت کر کے بہت سی غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے ۔ امیرشریعت نے مہاتما گاندھی کالج اوڈوپی میں کامرس کی طالبہ مسکان خان بنت محمد حسین خان کی جرأت و ہمت کی تحسین کرتے ہوئے اس بہادر طالبہ کو مبارک باد دی کہ شر پسندوں کے جھنڈ میں اس نے بہت ہی بہادری اور جرأت مندی کا مظاہرہ کیا اور نفرت پھیلانے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا ہے۔ آپ نے ان کے والدین کو بھی مبارک باد دی جنہوں نے اپنی بچی کی اتنی اچھی تربیت کی ہے۔

فیصل رحمانی نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ بیٹی پڑھائو، بیٹی بچائو کا نعرہ دینے والوں کے یہاں اتنی جرات کسی کو کیسے مل گئی کہ وہ کسی طالبہ کو گھیرسکے، یہ ماحول کس نے بنایا، زبردستی ،چڑھانے اور ٹارچر کرنے کے لیے جے شری رام کا نعرہ لگانا یا لگوانا کس قانون کے تحت درست ہے، انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ آخر اچانک حجاب سے پریشانی کیوں ہونے لگی۔

انہوں نے اپوزیشن لیڈروں سے بھی درخواست کی کہ وہ اس معاملہ میں اپنا مثبت کردار اداکریں اور دباؤ بناکر غیر آئینی حکم کو واپس کرائیں، آئینی حقوق کے تحفظ میں یہ آپ کا قابل ذکر کردار ہوگا۔