کشمیری تاجروں کے لیے آسام دوسرا گھر کیوں ہے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 06-01-2022
کشمیری تاجروں کے لیے آسام دوسرا گھر کیوں ہے؟
کشمیری تاجروں کے لیے آسام دوسرا گھر کیوں ہے؟

 

 

عارف الاسلام/ گوہاٹی

جیسے جیسے سورج کی تپش کم ہوتی ہے، گوہاٹی کی سڑکوں پر کشمیری شالوں کے تاجر نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ ملک کے اس حصے میں موسم سرما کے آمد کی خبر دیتے ہیں۔

 یہ کشمیری تاجرہیں، جو عام طور پر کشمیری شال ، کشمیری سوٹ وغیرہ کے نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دن بھر وہ ادھر گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کشمیری ملبوسات فروخت کرنے والے عام طور پرکشمیر کے دیہی علاقوں میں تیار کردہ ملبوسات کی تجارت کی غرض سے یہاں آتے ہیں۔

awaz

کشمیری ملبوسات

کشمیری ملبوسات کے تاجرآسام کے مختلف علاقوں میں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ کشمیری شال، جوتے، سوٹ یہاں ہر کسی کی پسندیدہ شئےہے، کیونکہ کشمیری کپڑوں میں غیر معمولی ڈیزائن، رنگین پھولوں کی کڑھائی کندہ ہوتی ہیں جو کہ روایتی طرز پر بنائے جاتے ہیں۔

وہ آسام کے تقریباً تمام بڑے اضلاع مثلاً گوہاٹی ، نلباری، ناگاؤں، گولاگھاٹ، ڈبروگڑھ، بونگائیگاؤں، تینسوکیا، سلچر وغیرہ میں کاروبار کرتے ہیں۔

awaz

کشمیری شال

وہ شہر کے مختلف علاقوں میں کرائے پر مکان لے کر رہتے ہیں اور وہاں سے روزانہ پیدل چل کر دیہی علاقوں میں جاتے ہیں۔ کشمیر میں سال بھر کپڑے تیار ہوتے ہیں لیکن یہ کشمیری تاجر آسام میں صرف چار ماہ کے لیے تجارت کی غرض سے آتے ہیں۔ نومبر، دسمبر، جنوری اور فروری یہ وہ چار مہینے ہیں جب ریاست آسام میں کشمیری کپڑے فروخت ہوتے ہیں۔

کشمیری تاجرسال کے بقیہ آٹھ مہینے اپنے وطن کشمیر میں گزارتے ہیں اور وادی کشمیر میں اپنی متعلقہ دکانوں پر کاروبار کرتے ہیں، کیونکہ کشمیری ملبوسات کا کاروبار ریاست آسام میں گرمیوں میں سرد پڑ جاتا ہے۔ یہ کشمیری اکثر آسام کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں۔

awaz

مختلف کشمیری ملبوسات

آواز دی وائس کے ساتھ بات چیت کے دوران کشمیری گارمنٹس ڈیلر صابر احمد نے کہا کہ میں21 سالوں سے آسام میں کاروبار کر رہا ہوں۔ ہمارے لوگ آسام کے تقریباً تمام بڑے شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں میں کپڑے بیچتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سلوار قمیض، سوٹ، شال، کرتہ، کاٹن سوٹ، قالین، کمبل اور مختلف قسم کے کپڑے فروخت کرتے ہیں۔

آسام کے لوگ ہمارے لباس کو بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ ہم سے کپڑے خریدتے ہیں اورموسم سرما کے ملبوسات خریدنے کے لیے اس کا انتظار بھی کرتے ہیں۔ کشمیری کپڑے کے تاجر زیادہ تر گوہاٹی کے علاقے گاندھی بستی میں کپڑوں کا ذخیرہ کرتے ہیں۔اسی علاقے میں وہ رہنا بھی پسند کرتے ہیں۔ وہاں سے وہ روزانہ سائیکل پرسوارہوکر کپڑے بیچنے کے لیے گوہاٹی کے مختلف حصوں میں چلے جاتے ہیں۔

کشمیری تاجر جمعہ کے علاوہ ہفتے کے چھ دن کپڑے بیچنے کے لیے نکلتے ہیں۔ وہ جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں اور جمعہ کے دن آرام کرتے ہیں۔

awaz

کشمیری شال کا جواب نہیں

آسام میں 21 سال کے کاروباری تجربے اور آسامی لوگوں کے ساتھ ان کے معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے، صابر احمد نے کہا کہ آسام کے لوگ بہت پیار کرنے والے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آسامی لوگوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے۔ 21 سالوں میں میرا ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا، جب کہ پوری ریاست میں کسی نے بھی میرے ساتھ زیادتی کی ہو یا میرا سامان چھین لیا ہو۔

کشمیر میں مذہبی بنیادوں پر یا سیاسی بنیادوں پر کئی بار تنازعات ہوئے، لیکن اس وقت بھی کسی آسامی نے ہمارے ساتھ بدتمیزی نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ آسام کے لوگ اتنے ہی پیارے ہیں جتنی خوبصورت ریاست آسام ہے۔

awaz

آسام میں ہے کشمیری شال کی مانگ

ایک دیگر گارمنٹس ڈیلرعرفان احمد آسام میں گذشتہ 10 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چاہے جگہ کیسی بھی ہو لوگوں کو اچھا ہونا چاہیے۔ آسام کے معاملے میں یہ دونوں ہی چیزیں بہت اچھی ہیں۔

یہ جگہ خوبصورت ہے اور یہاں کے لوگ بھی بہت اچھے ہیں۔ مجھے گزشتہ 10 سالوں میں آسام کے لوگوں سے بہت سا پیار ملا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کبھی ہمارے ساتھ کچھ غلط ہو جاتا ہے تو مقامی لوگ ہماری مدد کرتے ہیں۔ ہم آسام کو کبھی نہیں بھولیں گے۔