عارف الاسلام/ گوہاٹی
جیسے جیسے سورج کی تپش کم ہوتی ہے، گوہاٹی کی سڑکوں پر کشمیری شالوں کے تاجر نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ ملک کے اس حصے میں موسم سرما کے آمد کی خبر دیتے ہیں۔
یہ کشمیری تاجرہیں، جو عام طور پر کشمیری شال ، کشمیری سوٹ وغیرہ کے نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دن بھر وہ ادھر گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کشمیری ملبوسات فروخت کرنے والے عام طور پرکشمیر کے دیہی علاقوں میں تیار کردہ ملبوسات کی تجارت کی غرض سے یہاں آتے ہیں۔
کشمیری ملبوسات
کشمیری ملبوسات کے تاجرآسام کے مختلف علاقوں میں اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ کشمیری شال، جوتے، سوٹ یہاں ہر کسی کی پسندیدہ شئےہے، کیونکہ کشمیری کپڑوں میں غیر معمولی ڈیزائن، رنگین پھولوں کی کڑھائی کندہ ہوتی ہیں جو کہ روایتی طرز پر بنائے جاتے ہیں۔
وہ آسام کے تقریباً تمام بڑے اضلاع مثلاً گوہاٹی ، نلباری، ناگاؤں، گولاگھاٹ، ڈبروگڑھ، بونگائیگاؤں، تینسوکیا، سلچر وغیرہ میں کاروبار کرتے ہیں۔
کشمیری شال
وہ شہر کے مختلف علاقوں میں کرائے پر مکان لے کر رہتے ہیں اور وہاں سے روزانہ پیدل چل کر دیہی علاقوں میں جاتے ہیں۔ کشمیر میں سال بھر کپڑے تیار ہوتے ہیں لیکن یہ کشمیری تاجر آسام میں صرف چار ماہ کے لیے تجارت کی غرض سے آتے ہیں۔ نومبر، دسمبر، جنوری اور فروری یہ وہ چار مہینے ہیں جب ریاست آسام میں کشمیری کپڑے فروخت ہوتے ہیں۔
کشمیری تاجرسال کے بقیہ آٹھ مہینے اپنے وطن کشمیر میں گزارتے ہیں اور وادی کشمیر میں اپنی متعلقہ دکانوں پر کاروبار کرتے ہیں، کیونکہ کشمیری ملبوسات کا کاروبار ریاست آسام میں گرمیوں میں سرد پڑ جاتا ہے۔ یہ کشمیری اکثر آسام کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں۔
مختلف کشمیری ملبوسات
آواز دی وائس کے ساتھ بات چیت کے دوران کشمیری گارمنٹس ڈیلر صابر احمد نے کہا کہ میں21 سالوں سے آسام میں کاروبار کر رہا ہوں۔ ہمارے لوگ آسام کے تقریباً تمام بڑے شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں میں کپڑے بیچتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سلوار قمیض، سوٹ، شال، کرتہ، کاٹن سوٹ، قالین، کمبل اور مختلف قسم کے کپڑے فروخت کرتے ہیں۔
آسام کے لوگ ہمارے لباس کو بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ ہم سے کپڑے خریدتے ہیں اورموسم سرما کے ملبوسات خریدنے کے لیے اس کا انتظار بھی کرتے ہیں۔ کشمیری کپڑے کے تاجر زیادہ تر گوہاٹی کے علاقے گاندھی بستی میں کپڑوں کا ذخیرہ کرتے ہیں۔اسی علاقے میں وہ رہنا بھی پسند کرتے ہیں۔ وہاں سے وہ روزانہ سائیکل پرسوارہوکر کپڑے بیچنے کے لیے گوہاٹی کے مختلف حصوں میں چلے جاتے ہیں۔
کشمیری تاجر جمعہ کے علاوہ ہفتے کے چھ دن کپڑے بیچنے کے لیے نکلتے ہیں۔ وہ جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں اور جمعہ کے دن آرام کرتے ہیں۔
کشمیری شال کا جواب نہیں
آسام میں 21 سال کے کاروباری تجربے اور آسامی لوگوں کے ساتھ ان کے معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے، صابر احمد نے کہا کہ آسام کے لوگ بہت پیار کرنے والے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آسامی لوگوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے۔ 21 سالوں میں میرا ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا، جب کہ پوری ریاست میں کسی نے بھی میرے ساتھ زیادتی کی ہو یا میرا سامان چھین لیا ہو۔
کشمیر میں مذہبی بنیادوں پر یا سیاسی بنیادوں پر کئی بار تنازعات ہوئے، لیکن اس وقت بھی کسی آسامی نے ہمارے ساتھ بدتمیزی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ آسام کے لوگ اتنے ہی پیارے ہیں جتنی خوبصورت ریاست آسام ہے۔
آسام میں ہے کشمیری شال کی مانگ
ایک دیگر گارمنٹس ڈیلرعرفان احمد آسام میں گذشتہ 10 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چاہے جگہ کیسی بھی ہو لوگوں کو اچھا ہونا چاہیے۔ آسام کے معاملے میں یہ دونوں ہی چیزیں بہت اچھی ہیں۔
یہ جگہ خوبصورت ہے اور یہاں کے لوگ بھی بہت اچھے ہیں۔ مجھے گزشتہ 10 سالوں میں آسام کے لوگوں سے بہت سا پیار ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کبھی ہمارے ساتھ کچھ غلط ہو جاتا ہے تو مقامی لوگ ہماری مدد کرتے ہیں۔ ہم آسام کو کبھی نہیں بھولیں گے۔