آرٹیکل341 کا مسلمانوں کی پسماندگی سے گہرا رشتہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-05-2023
آرٹیکل341 کا مسلمانوں کی پسماندگی سے گہرا رشتہ
آرٹیکل341 کا مسلمانوں کی پسماندگی سے گہرا رشتہ

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں اپنی پارٹی کے کارکنوں سے کہا کہ وہ پسماندہ مسلمانوں کے قریب جائیں۔ اس کے بعد اترپردیش کے بلدیاتی الیکشن میں بڑی تعداد میں پسماندہ مسلمانوں کو ٹکٹ دیا جن میں سے بہتوں نے جیت بھی حاصل کی۔ اب اترپردیش ہی نہیں پورے ملک میں پسماندہ مسلمانوں کی بات ہورہی ہے مگر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ اس کا آئین ہند کے آرٹیکل 341سے گہرا تعلق ہے اور اس میں ترمیم کئے بغیر پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاسکتا۔

ماضی میں حکومت ہند نے مسلمانوں کے تعلیمی، سماجی اور معاشی حالات جاننے کے لئے رنگناتھ مشرا کمیشن اور سچرکمیٹی بنایا تھا اور ان کمیشنوں نے بھی سفارش کیا تھا کہ آرٹیکل 341میں ترمیم کی جائے اور اس میں مسلمانوں کو شامل کیا جائے۔فی الحال سپریم کورٹ میں آرٹیکل 341 کا معاملہ زیرسماعت ہے اور امید ہے کہ کورٹ اس میں انصاف کرے گا۔

کیا ہےآرٹیکل 341؟

سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 341 کیا ہے اور اس کا مسلمانوں کی پسماندگی سے کیا تعلق ہے؟ اصل میں یہ دفعہ انگریزی عہد حکومت میں وجود میں آئی تھی۔ اس دفعہ کے تحت حکومت کی ذمہ داری ہے کہ انتہائی پسماند ذاتوں اور قبائل کے لئے خصوصی انتظام کرے۔اسی دفعہ کے تحت شڈول کاسٹ اور شڈول ٹرائب طبقوں کے لئے ریزرویشن کا انتظام کیا گیا ہے۔ابتدائی طور پر انگریز حکمرانوں نے اس میں ملک کے سبھی طبقوں کو شامل رکھا تھااور مذہب کی بنیاد پر کوئی بھید بھائو نہیں رکھا تھا۔ البتہ حکمراں طبقہ خود عیسائی تھا اور پسماندہ نہیں تھا لہٰذا عیسائیوں کو اس میں شامل نہیں رکھاتھا۔

اس کا فائدہ مسلمان، ہندو، سکھ، بدھسٹ سبھی اٹھاسکتے تھے لیکن آزادی کے بعد جب پنڈت جواہر لعل نہرو، ملک کے وزیراعظم تھے،1950میں ایک صدارتی حکم کے ذریعہ اس کا فائدہ ہندووں تک محدود کردیا گیا۔ یعنی سکھوں، مسلمانوں اور بدھسٹوں کو اس کے فائدے سے محروم کردیا گیا۔ البتہ 1956 میں سکھوں کودوبارہ اس فہرست میں شامل کرلیا گیا اور پھر 1990 میں بدھسٹوں کو بھی شامل کیا گیا مگر مسلمانوں کوآج تک شامل نہیں کیا گیا۔ آرٹیکل341 کے تحت ہی ایس سی، ایس ٹی طبقے کو22.5فیصد ریزرویشن دیا جاتا ہے جس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک دھوبی، نائی، موچی اگر ہندو،سکھ یا بدھسٹ ہے تو وہ اس کا حقدار ہے لیکن اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا حقدار نہیں ہے۔ ایس سی،ایس ٹی کے لئے ریزور اسمبلی، پارلیمنٹ اور بلدیہ وپنچایت کی سیٹوں پر کسی مسلمان کو الیکشن لڑنے کا اختیار نہیں ہے،کیونکہ آرٹیکل 341 پر مذہبی قید لگی ہوئی ہے۔

دلت مسلم تحریک

ان دنوں مسلمانوں اور عیسائیوں کی متعدد تنظیمیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ آرٹیکل341 سے مذہبی قید ہٹائی جائے مگر کسی حکومت نے اس مطالبے پر توجہ نہیں دیا ہے۔ 1990کی دہائی میں پٹنہ کے معروف سرجن ڈاکٹر ایم اعجازعلی نے اسے ایشو بناکر تحریک شروع کی۔ انہوں نے بیک ورڈمسلم مورچہ نام سے تنظیم بنائی تھی جس کا نام بعد میں یونائیٹیڈ مسلم مورچہ کردیا گیا۔ اس تحریک میں صحافی علی انورانصاری بھی شامل تھے۔ بعد میں دونوں کے بیچ اختلاف ہوئے اور ان کی راہیں الگ الگ ہوگئیں مگر آرٹیکل341 کی بات نہیں بھولے۔ اتفاق سے دونوں کو راجیہ سبھا کی رکنیت ملی اور ڈاکٹراعجازعلی نے تو کئی بار اس معاملے کو ایوان میں بھی اٹھایا۔

ان کی تحریک کا یہ اثر ہوا کہ بہار، اترپردیش سمیت متعدد ریاستی اسمبلیوں نے اس کے حق میں قراردادیں پاس کیں اور مرکزی حکومت کو بھیجا۔ سبھی قراردادوں میں یہی بات کہی گئی تھی کہ مذکورہ دفعہ سے مذہبی قید ہٹائی جائے۔ ڈاکٹرمنموہن سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں مسلمانوں کے متعدد وفود نے ان سے ملاقاتیں کیں اور اس سلسلے میں گفتگو کیں مگرساری کوششیں رائیگاں گئیں۔ جمعیت علما ہند، جمعیت اہل حدیث اور جماعت اسلامی ہند جیسی جماعتیں مسلسل اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کر رہی ہیں مگر ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔

سپریم کورٹ میں ہے معاملہ

آرٹیکل341میں ترمیم کا معاملہ فی الحال سپریم کورٹ میں ہےاور مسلمانوں کو امید ہے کہ ملک کی سب سے اونچی عدالت، ان کے ساتھ جاری بھید بھائو کوختم کرےگی۔

اس سلسلے میں متعدد سماعتیں ہوچکی ہیں۔ فی الحال حکومت نے دلت مسلمانوں کے حالات سے آگاہی کے لئے ایک کمیشن بنا رکھا ہےجس کی سربراہی سابق چیف جسٹس آف انڈیا اور  نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) کے چیئرمین کے جی بالاکرشنن کررہےہیں۔ وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں کہ عیسائی اور مسلمان بننے والے دلتوں کے ساتھ یکساں سلوک کو کیسے یقینی بنایا جائے گا۔

 واضح رہے کہ یو پی اے حکومت نے مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا مطالعہ کرنے کے لیے اکتوبر 2004 میں رنگناتھ مشرا کمیشن اور مارچ 2005 میں سچر کمیٹی کو تشکیل دیا تھا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ نے مشاہدہ کیا کہ تبدیلی مذہب کے بعد بھی دلت مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کی سماجی اور معاشی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

رنگناتھ مشرا کمیشن، جس نے مئی 2007 میں اپنی رپورٹ پیش کی، سفارش کی کہ درج فہرست ذات کی حیثیت کو "مذہب سے مکمل طور پر الگ کر دیا جائے اور درج فہرست ذاتوں کو درج فہرست قبائل کی طرح مکمل طور پر مذہب سے غیر جانبدار بنایا جائے۔" جنوری 2008 میں اقلیتوں کے قومی کمیشن کی طرف سے شروع کردہ ایک مطالعہ، کی رپورٹ آئی۔ اس میں تجویز کیا گیا تھا کہ دلت عیسائیوں اور دلت مسلمانوں کو درج فہرست ذات کا درجہ دیا جائے۔

اس سلسلے میں تحریک چلانے والی اور سپریم کورٹ میں معاملے کی فریق آل انڈیا یونائیٹڈ مسلم مورچہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کرچکی ہے کہ وہ آرٹیکل 341 اورانتہائی پسماندہ دلت مسلمانوں کے ریزرویشن سے متعلق فیصلہ جلد سنائیں۔مورچہ کے مطابق یہ معاملہ دو دہائی سے زیادہ مدت سے سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔ اس کا ایشو فریمنگ 2011 میں ہی ہوا تھا اور 2019 میں مرکزی حکومت نے بھی اپنا رخ بھیجا دیا تھا۔ ایسے میں فیصلہ نہ ہونا تشویشناک ہے۔