فن کا کوئی عقیدہ نہیں ۔دانشور حضرات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-08-2022
فن کا کوئی عقیدہ نہیں ۔دانشور حضرات
فن کا کوئی عقیدہ نہیں ۔دانشور حضرات

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

یوٹیوب پربھونچال مچانے والی دیسیگلوکار فرمانی ناز نے اس سال فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے  کانوڑ یاترا کے موقع پر ایک بھجن گایا جو یو ٹیوب پر زبردست ہٹ ہوگیا۔  بھگوان شیو کا بھجن 'ہر ہر شمبھو'کے گیت نے سبھوں کے دل جیت لیے لیکن کچھ لوگوں کے دلوں کو ناگوار گزرا کہ ایک مسلمان خاتون کسی بھگوان کی تعریف میں کیسے بھجن گا سکتی ہے۔ جس کا ایک نمونہ اس وقت سامنے آیا اتر پردیش کے دیو بند علاقہ کے ایک عالم نے اسے غیر اسلامی اور خلاف اسلام قرار دیدیا  مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی اور کے اس کی حمایت میں آنے سے قبل فرمانی ناز نے خود ہی اس عالم کو منھ توڑ جواب دیدیا اور بڑے صاف لفظوں میں ہا کہ فنکار کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے ،اللہ نے آواز دی ہے اس سے ہم سب کو خوش کرسکتے ہیں ۔

بہرحال ایک عالم کے بیان نے ایک بار پھر نئی بحث چھیڑ دی۔ان کی حمایت میں اب میڈیا سے  سوشل میڈیا  تک ایک محاذ بن چکا ہے ۔لوگ تنقید کرنے والوں کو یاد دلا رہے ہیں کہ فن کو مذہب کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے ۔فرمانی پر تنقید کرنے سے قبل اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ فلمی دنیا میں ایسے لا تعداد بھجن اور نعتیں موجود ہیں جو ہندو اور مسلمان گیت کاروں نے پیش کی ہیں اور جنہیں آج تک بھلایا نہیں جاسکا ہے۔

اس کی ایک بڑی مثال فلم ’بیجو باورا‘ کا بھجن من تڑپت ہری درشن ہے جس کے نغمہ نگار شکیل بدایونی تھے تو اس کو محمد رفیع نے اپنی جادوئی آواز دی تھی یھی نہیں اس کی میوزک نوشاد کی تھی ۔ فلم ’لگان ‘ میں جاوید اختر کا لکھا بھجن ’’ او پالن ہارے‘ اے آر رحمان کی موسیقی کے ساتھ فن کا خوبصورت نمونہ ہے ۔

ممتاز اسلامی اسکالر اور خسرو فاونڈیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر اختر الوسع نے کہا کہ فن کے معاملہ میں عقیدے کو درمیان میں نہیں لانا چاہیے ۔ اگر محمد رفیع نے ’من تڑپت ہری درشن‘ کو آواز دی تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بلبل ہند کہلانے والی لتا منگیشکر کی  فلم مغل اعظم میں ایک نعت’’بیکس پہ کرم کیجئے، سرکارِ مدینہ‘‘۔۔۔  سپر ہٹ ہوئی تھی۔ نوشاد کی دھن میں یہ نعت بڑی موثر ہے اور سننے سے دل کی کیفیت عجیب طرح کی ہو جاتی ہے۔ اس میں اب کوئی عقیدے کا سوال کہاں سے آگیا۔

 پروفیسر اختر الواسع نے مزید کہا کہ شنکر پنڈت اور شمبھو پنڈت یعنی شنکر شنبھو کی جوڑی ایک قوالی گروپ  کی حیثیت سے کافی مشہور و معروف رہی۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ہندو ہیں، وہ بھی پنڈت گھرانے کے لیکن ان کی دلچسپی روحانی اور مذہبی قوالیاں۔ حمد، نعت، منقبت، سماء خوانی تھیں۔  جب بھی شنکر شمبھو گاتے تھے تو محفل میں ایک روحانی ماحول بن جاتا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر مولانا ابوالکام آزاد نے شری رام کو امام ہند کہا تھا تواس کا مطلب یہ نہیں ان کا عقیدہ نہیں بدل گیا ۔میرے خیال میں فن کو فن ہی رہنے دیا جائے کیونکہ یہ ایک خدا داد صلاحیت ہوتی ہے جو کسی ایک فرد یا طبقہ تک محدود نہیں رہ سکتی ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے  کہ اردو کے نہ جانے کتنے شعرا نے بھگوانوں اور دیوتاوں کی تعریف میں نظمیں لکھی ہیں اور یہی نہیں مولانا حضرت خواجہ حسن ثانی نظام سمیت متعدد بڑی ہستیوں نے ایسا ہی کیا ۔

مزید پڑھیں : فرمانی کا بھجن گانا غیر اسلامی ہے۔ 

ممتاز اسلامی اسکالر اور انٹر فیتھ ہارمونی کے صدر ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے اس معاملے پر کہا کہ وطن عزیز ہندوستان کا امتیاز کثرت میں وحدت کے بنیادی فلسفے میں یقین محکم، مشترکہ وراثت و روایا ت پر مبنی معاشرتت کے باہم وجود، مختلف مذہبی عقائد،  تہذیب ، تمدن  اور اقدار روایات میں خوشگوار  باہمی ربط اور ایک دوسرے کے  احترام کی ایک منفرد تاریح میں پیوست ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ وہ واحد ریاست ہندوستان ہے جس نے دنیا کے ہر فلسفے ،نظریئے اور عقیدے کے فروغ کو زمین فراہم کی ہے۔ یہاں اگر برج نارائن چکبست پیغمبر اسلام رسول اللہ کی شا ن میں نعتیں لکھتے ہیں اور مالک اسلامیات کے بارے میں اپنی رائے کو لیکر  اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود مسلم معاشرے میں مقبول عام شخصیت کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہیں  حکیم الامت علامہ محمد اقبال بھگوان رام کو امام ہند قرار دیتے ہیں اور ہمارے متعدد شعراء رام اور کرشن کی شان میں کلام لکھنے اور پڑھنے کے حوالے سے اپنیُ منفرد  شناخت رکھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ  کتنے  ہی مسلم گھرانے ہماری کلاسکی موسیقی کے صدیوں سے امین رہے ہیں اور ٓاج بھی  ہیں ۔ایم ایف حسین  جیسے کتنے ہی مسلم فنکاراپنے فن سے ہمارے معاشرے کی مصوری کے ذریعہ تصویر کشی کرتے آ رہے ہیں۔ یوسف خان دلیپ کمار کے نام سے فلموں میں ہر طرح کے کردار ادا کرتے رہے ہیں مسلم اداکار اور اداکارائیں ہماری فلمی دنیا کی مقبول ترین ہستیاں رہی ہیں اور آج بھی ہیں۔

 ہندو گلوکاروں نے بہترین محفل سماں منعقد کی ہیں اور حضور کی شان میں نعتیں پڑھیں ہیں اور پورے عقیدت کے ساتھ  پڑھتے ہیں۔ اسی طرح مشہور ترین مسلم گلوکاروں نے ایسے خوبصورت بھجن گائے ہیں کہ ہمارے اکثریتی معاشرے میں وہ گھر گھر میں مقبول ہیں اور سنے  جاتے ہیں۔ فرمانی اسی کڑی اور روایات کا تسلسل ہے ۔روایتوں کو وراثت کے زمرے میں دیکھا اور پرکھا جانا چاہیے

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے کہا کہ ایسا کرنے سے ہماری قومی یک جہتی اور روایتی فرقہ وارانہ ہم آہنگی مضبوط ہوتی ہے اورمذہبی  شدت پسندی پر کامیاب لگام بھی لگتی ہے۔