کسی زبان کو مذہب یا ذات سے جوڑنا ناانصافی ہے: پروفیسرمعراج احمد

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 03-08-2021
پروفیسر ڈاکٹر محمد معراج احمد
پروفیسر ڈاکٹر محمد معراج احمد

 

 

رتنا شکلا، نئ دہلی

پروفیسرمعراج احمد کا کہنا ہے کہ کسی بھی زبان کو مذہب یا ذات سے جوڑکر نہیں دیکھنا چائیے کیوں کہ کوئی بھی زبان مافی الظمیر کے اظہار کا ذریعہ ہے۔

کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سنسکرت کے صدر و معروف اسکالر پروفیسر معراج احمد نے رتنا شکلا سے ایک خاص بات چیت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، پیش ہے ان کے انٹرویو کے متعلقہ حصے۔

زبانوں کے علم کے بارے میں لوگوں کی سوچ عام طور پر تنگ ہے۔ عام طور پر ہم زبان کو کئی طریقوں سے محدود کردیتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں لوگ مسلم کمیونٹی سے آنے والے علماء کے سنسکرت علم کے بارے میں بھی حیران ہیں، کیا یہ واقعی ایک منفرد کامیابی ہے؟

گولڈ میڈلسٹ پروفیسر معراج احمد

کشمیر یونیورسٹی کے آرٹس، لینگویجز اور لٹریچر کے تحت آنے والے شعبہ سنسکرت کے چیئرمین و صدر پروفیسرمعراج احمد نے آواز دی وائس کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا کہ زبان اظہار کا ذریعہ ہے۔ اظہار کا طریقہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، دو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، تاہم کسی بھی زبان، ذات، طبقہ، رنگ، مذہب یا علاقے کے ساتھ جوڑنا ناانصافی کی بات ہوگی۔

پروفیسر معراج احمد گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ پروفیسر معراج احمد کا تعلق ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے ہے۔

سنسکرت زبان سے لگاو

پروفیسرمعراج کا کہنا ہے کہ ان کے والد پولیس ڈیپارٹمنٹ میں تھےاور بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بہت زیادہ سنجیدہ تھے۔ ایسے میں پٹنہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش بچپن سے ہی ان میں موجزن تھی۔

اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے پٹنہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یہاں سے ایک اور خواہش پیدا ہوئی جو کہ انہیں سول سرویسزمیں جانا چاہئے تھا۔ ان کا مطالعہ جاری رہا اور انھوں نے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ دونوں امتحانات میں یونیورسٹی میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرلی، یہاں تک کہ سنسکرت میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے اور سنسکرت میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی کے تمام سابقہ ​​ریکارڈ توڑ دیئے۔

کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ سنسکرت

اگرچہ وہ سول سرویسز میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے،  تاہم ان کی قابلیت نے انہیں درس و تدریس کی طرف لے گئی اورپھر ان کی تقرری کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سنسکرت میں ہوگئی۔

 پروفیسرمعراج احمد کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے وہاں کا عہدہ سنبھالا تو سنسکرت ڈیپارٹمنٹ کی حالت بہت اچھی نہیں تھی کیونکہ سنسکرت کے اساتذہ کی کمی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ انھوں نے شعبہ کی حالت بہتر سے بہتر کرنی شروع کردی، جو سنسکرت کے تعلق سے جو بھی ضروری کتابیں و اشیا تھی، سبھی چیز انھوں نے شعبہ کے لیے مہیا کروایا۔

انھوں نے کہا کہ آج یہاں جدید سنسکرت پڑھائی جاتی ہے اور یہاں کے طلباء کو ملک و بیرون ملک شہرت ملتی ہے۔

کیا زبان میں سائنس ہے

پروفیسر معراج کے مطابق زبان بھی ایک قسم کی سائنس ہے اور اس کی خوبصورتی اور ترقی صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو زبانوں کے مطالعے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جب ہم زبان سیکھنے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو یہ خالصتاً ایک تعلیمی بات پوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ سنسکرت کشمیر کی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ کشمیر کی تاریخ لکھنے والے کلہن کا قدیم ہندوستان کے مورخین میں ایک خاص مقام ہے۔

سنسکرت زبان میں لکھی جانے والی کلہن کی کتاب رجت رنگینی کا ہندوستانی تاریخ میں اہم مقام ہے۔ اس کے لفظی معنی ہے بادشاہوں دریا۔

اس کتاب میں اس وقت کی سیاسی تاریخ کے بارے میں معلومات بیان کی گئی ہیں۔

پروفیسرمعراج احمد کے مطابق کشمیر میں سنسکرت آہستہ آہستہ ناپید ہو چکی تھی، لیکن یہ ہندوستانی تاریخ اور ثقافت کو جاننے کی کلید ہے، جسے عالمی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔

ایسی حالت میں سنسکرت زبان کو نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے کسی خاص طبقے یا ذات تک محدود کیا جانا چاہیے۔

انھون نے یہ بھی کہا کہ سنسکرت کبھی بھی امتیازی سلوک کی وجہ نہیں بنی۔

پروفیسر معراج احمد کا کہنا ہے کہ انہیں سنسکرت کی وجہ سے کبھی کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، اگر ایسا ہوتا تو وہ اعلیٰ ترین پوزیشن حاصل کرکے گولڈ میڈل حاصل نہ کرپاتے۔

انھوں نے کہا کہ کسی بھی کام کے لیے آپ کا رویہ بہت اہمیت رکھتا ہےاوراگرآپ پڑھنےاورلکھنے والے شخص ہیں تو یقینا آپ توسیع پسندانہ سوچ کے مالک ہیں۔

آخر سنسکرت کیوں مقبول نہیں ہے؟

پروفیسرمعراج احمد کے مطابق جو طالب علم بین الاقوامی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ایسی زبان کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں جو ان کے لیے کام کرے، یہی وجہ ہے کہ سنسکرت پیچھے رہ گئی ہے۔

یادداشت میں اضافہ

تاہم ہندوستانی اور بین الاقوامی سائنسدانوں کی ایک تحقیق کے مطابق ویدک شلوک کی تلاوت کرنے سے یادداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔

 پروفیسر معراج احمد کا کہنا ہے کہ سنسکرت دنیا کی کئی زبانوں کی ماں ہے،اسی لیے توکہا جاتا ہے کہ جو بھی سنسکرت میں آیا ہے وہ کوئی بھی زبان بہت آسانی سے سیکھ سکتا ہے۔

پیغام

پروفیسر معراج احمد آج ملک کی مشترکہ ثقافت کی زندہ علامت ہیں۔ ان کے مطابق تہزیب کے سنگم کی یہ سرزمین پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔