ہندوباپ کی آخری خواہش،مسلمان بیٹادے مکھیہ اگنی

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 01-04-2022
تمثیلی تصویر
تمثیلی تصویر

 

 

کولکاتا: مغربی بنگال میں ہندو مسلم اتحادکا ایک شاندار نمونہ دیکھا گیا۔ایک مسلمان بیٹے نے اپنے ہندوباپ کو مکھیہ اگنی دے کر اس کی آخری خواہش پوری کی۔

ہگلی کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے انور علی نے ثابت کر دیا کہ انسانیت کا رشتہ خون سے بڑا ہوتا ہے۔

ہندو باپ کی وفات کے بعد انور نے چتاکوآگ دے کراپنا فرض پورا کیا۔

اس کے اس اقدام کو پورے علاقے میں سراہا جا رہا ہے۔

کے ڈے اسٹریٹ شری رام پور کے رہنے والے انور علی پیشے سے ماربل کا مستری ہے۔ جب کہ شری رام پور کے رہنے والے سجیت ہلدار ایک سائنسدان تھے۔

ان کی ایک بیٹی چیتالی ہے، جو شادی کے بعد قبرص (بیرون ملک) میں رہتی ہے۔ وہ بھی ایک سائنسدان ہے۔ بیٹی کی شادی کے بعد سجیت ایک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوگئےتھے۔

awaz

سوجیت ہلدارکی بیوہ کے ساتھ انورعلی

اس دوران ان کی بیٹی واپس نہ آسکی اور گھر کے قریب رہنے والا انور علی سوجیت کے بڑھاپے کا سہارا بن گیا۔ خاندان کے ذرائع کے مطابق ایک بارسوجیت کو خون کی ضرورت تھی اورجب کسی اورکا بلڈ گروپ نہیں ملاتو انورعلی، کاگروپ جانچ کیا گیا اور میل کھا گیا۔ اس کے بعد انورعلی ،خاندان سے مزیدقریب آگیا اورسوجیت ہلدار کو جب بھی ضرورت پڑتی تو پہنچ جاتا ۔

انور، حقیقی بیٹے سے زیادہ باپ کا خیال رکھتا تھا۔وہ سوجیت کے بڑھاپے کا سہارا بن گیا اور سوجیت نے انورعلی کو اپنا بیٹا مان لیا۔ جب بھی سوجیت کی طبیعت خراب ہوتی، انور اسے اسپتال لے جاتا۔ جب بھی انھیں خون کی ضرورت ہوتی، انور انھیں اپنا خون دیتا۔

اس نے اپنے بیٹے ہونے کا فرض بخوبی نبھایا۔ اس دوران سوجیت نے خواہش ظاہر کی کہ اس کی موت کے بعد اس کا مسلمان بیٹا انور علی اسے مکھیہ اگنی دے گا۔ سوجیت کی موت کے بعدان کی بیوی نے ان کی اس خواہش کا اظہار انورعلی اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ کیا تو سب کو حیرت ہوئی مگر انورعلی نے ان کی آخری خواہش کا احترام کیا۔

انور علی نے بھی اپنے منہ بولے والد کی خواہش پوری کر دی۔ ان کی وفات کے بعد اس نے بیٹے کی ذمہ داری ادا کی اور مسلمان ہونے کے باوجود ان کی آخری رسومات مکمل ہندو رسم و رواج کے مطابق ادا کی۔

رشڑا لائنس کلب کے رکن تنموئے بھٹاچاریہ نے بتایا کہ آنجہانی سوجیت ہلدار دہلی کے رہنے والے تھے۔ وہ اپنی بیوی شپرا دیوی کے ساتھ سریرام پور میں اپنے نئے گھر میں ریٹائرمنٹ کے بعد رہ رہے تھے۔

سوجیت بابو میں کچھ سال پہلے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ بزرگ سوجیت بابو کو اسپتال لے جانے کے لیے ایک آدمی کی ضرورت تھی اور پھر لاک ڈاؤن شروع ہوگیا۔تب میں نے سوجیت کے بارے میں سوشل ورکرانورعلی کو بتایا کہ ایک بوڑھے آدمی کومددگار کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد سے انور انھیں ہسپتال لانے اور لے جانے کا سارا کام بے لوث کرتا تھا۔ سوجیت ہلدر کا گزشتہ منگل کو انتقال ہو گیا تھا۔ مرنے سے پہلے سوجیت ہلدر نے اپنے گھر والوں کو وصیت کیا تھا کہ اگر ان کی بیٹی، نہ آ سکے تو انور کو ان کا انتم سنسکار کرنا چاہیے۔

انور نے اسے قبول کر کے سوجیت ہلدار کی آخری خواہش پوری کر دی۔ اس نے تمام اصولوں کی پابندی کی۔

اس حوالے سے انور نے کہا کہ میں ذات پات پر یقین نہیں رکھتا۔ گھر میں والدین اور ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ میں نے سوجیت ہلدار کی آخری خواہش پوری کرنے سے پہلے اپنے والد سے پوچھا۔ انھوں نے مجھے یہ کام کرنے کو کہا۔

انورعلی نے مزید کہا کہ اس کے بعد وہ شرادھ کے تمام کام قواعد کے مطابق کر ےگا۔ وہ ہمیشہ بے سہارا لوگوں کے ساتھ کھڑا رہاہے۔ اگر کسی مریض کو علاج کی ضرورت ہو تو وہ اس کی دیکھ بھال کرتا ہے اور انہیں گھر تک لاتا لے جاتا ہے۔ وہ یہ کام پچھلے 25 سالوں سے کر رہا ہے۔

دو سال پہلے سوجیت ہلدار کے گھر والوں میں اس کام کے موضوع پر بحث ہوئی تھی۔ وہ سوجیت بابو کو اپنے خاندان کا فرد سمجھتا تھا۔

انورعلی ایک سوشل ورکر ہے اور اس نے بتایا کہ وہ مئی کے آخری ہفتے میں ریاست سے چار لوگوں کو آنکھوں کے علاج کے لیے حیدرآباد کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں لے جا رہاہے۔ انور نے کہا کہ میں لوگوں کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ انسان ،انسان کے کام آئے۔