علی گڑھ؍ دہلی:
یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور آج کے صحافی کے لیے تکنیکی مہارت ناگزیر ہے۔اردو صحافت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا وقت کی ضرورت ہے،
اردو صحافت پر ایک مذاکرے میں ڈاکٹر راحت ابرار نے ان خیالات کا اظہار کیا-
انہوں نے کہا کہ دوسری زبانوں کی صحافت کا مقابلہ کر نے کے لیے ہمیں وقت کے ساتھ چلنا ہوگا-گے۔ نوجوانوں کو ڈیجیٹل ٹولز اور آن لائن پلیٹ فارمز کے استعمال کی باقاعدہ تربیت دی جانی ضروری ہے
پیر کو قومی اردو کونسل کے زیر اہتمام طب اور صحافت کےحوالے سے دومذاکروں کا انعقاد ہوا، دراصل اردو کتاب میلہ کے تیسرے دن’جدید تکنیکی وسائل اور اردو صحافت: امکانات و چیلنجز‘ اور ’طبِ یونانی اور اردو زبان و ادب‘ کے موضوعات پر مذاکرے ہوئے ۔ جدید تکنیکی وسائل اور اردو صحافت: امکانات و چیلنجز کے حوالے سے ڈاکٹر راحت ابرار، جناب وجیہ الدین، پروفیسر خالد سیف اللہ اور جناب اشرف بستوی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا
وجیہ الدین ٹائمزآف انڈیا کے سینیر سب ایڈیٹرنے اردوصحافت کی ایک روشن اور زریں روایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ جدید ترین وسائل کی کمی اردو اخبارات کا اہم مسئلہ ہے، لیکن بہتر حکمتِ عملی اور ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال سے صورتِ حال کو بہت حد تک بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ پروفیسر خالد سیف اللہ (شعبہ اردو علی گڑھ)ادبی صحافت پر روشنی ڈالی اور صحافتی زبان کو اپنی گفتگو کا محور و مرکز بناتے ہوئے جدید ترین ٹیکنالوجی کی وجہ سے نے آسانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ رسائل کی ترسیل میں پہلے جو دشواریاں تھیں اسے جدید ترین ٹکنالوجی نے آسان ترین بنا دیاہے اب ذرا سی دیرمیں اخبارات اور مجلات کی سافٹ کاپی دور دراز کے علاقوں تک پہنچائی جاسکتی ہے۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اردو صحافت تبھی زندہ اور فعال رہے گی جب قارئین کی تعداد بڑھے گی اور نئی نسل اس کے ساتھ جڑی رہے گی۔
ویب پورٹل ایشیا ٹائمز کےایڈیٹر اشرف علی بستوی نے کہا کہ اردو صحافت کا بیشتر مواد انٹرنیٹ پر JPG یا PDF فائلوں کی صورت میں موجود ہے، مگر سرچ کرنے میں بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں ۔انھوں نے تجویز دی کہ اردو ادارے اور اخبارات اپنی ویب سائٹس کو بہتر بنائیں، متن کو یونی کوڈ میں منتقل کریں اور ڈیجیٹل آرکائیونگ کو فروغ دیں تاکہ اردو صحافت کا ذخیرہ عالمی سطح پر زیادہ قابلِ رسائی ہوسکے۔اس مذاکرے کے موڈریشن کے فرائض ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نے انجام دیے۔
بات طب یونانی کی
اس سے قبل 'طب یونانی اور اردو زبان و ادب' کے عنوان سے منعقد ہونے والے مذاکرے میں پروفیسر اشہر قدیر، پروفیسر آسیہ سلطانہ اور حکیم فخر عالم پینلسٹ کے طور پر شریک ہوئے جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شاداب شمیم نے انجام دیے۔
پروفیسر اشہر قدیر نے بتایا کہ طب یونانی قدیم ترین طریقہ علاج ہے اور اردو زبان میں اس کے منتقل ہونے سے عوام الناس کو بے حد فائدہ پہنچا۔ انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ علم طب پر لکھنے والوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے جس کے باعث طبی رسائل کا سلسلۂ اشاعت بھی متاثر ہوا ہے۔
پروفیسر آسیہ سلطانہ نے حکومتِ ہند کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یونانی طب کے باضابطہ شعبے کا قیام ایک بڑا قدم ہے جس سے تحقیق اور تدریس کے نئے پہلو سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے طلبہ اور اہلِ علم کو مشورہ دیا کہ عصری تقاضوں کے مطابق اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی تحریری صلاحیت پیدا کریں تاکہ عالمی سطح پر علم طب کی رسائی میں اضافہ ہو۔
حکیم فخر عالم نے طبِ یونانی اور اردو زبان کے گہرے رشتے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اردو میں یونانی طب کی بے شمار مستند کتابیں تحریر کی گئیں اور خاص بات یہ ہے کہ شعر وادب کی دنیا میں بہت سے اطبا مستند نام کی حیثیت رکھتے ہیں اور طب اور ادب دونوں میں ہی ان کی شناخت مستحکم ہے۔ اس پینل کے بیشتر شرکا نے کہاکہ اردو زبان و ادب میں یونانی طب کا بیش قیمت ذخیرہ موجود ہے اور اس زبان کے فروغ اور تحفظ میں یونانی طب کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ کتاب میلے کے تیسرے دن منعقد ہونے والے یہ دونوں مذاکرے اپنے موضوعات اور حاضرین کی بھرپور دلچسپی کی بنا پر بہت کامیاب رہے۔ حاضرین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کتاب میلے کی یہ علمی محفلیں نہ صرف نئے افکار و اقدار سے روشناس کراتی ہیں بلکہ سوچ کے بند دروازوں کو بھی وا کرتی ہیں ۔