امیر خسرو ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے: پروفیسر اخترالواسع

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 27-05-2022
زیر نظر تصویر میں دائیں سے بائیں پروفیسر مظہر آصف، پروفیسر اخلاق آہن، صدر جلسہ پروفیسر اخترالواسع، ڈاکٹر شکراللہی، پروفیسر گریما شری واستوا اور شری رنجن مکھرجی۔
زیر نظر تصویر میں دائیں سے بائیں پروفیسر مظہر آصف، پروفیسر اخلاق آہن، صدر جلسہ پروفیسر اخترالواسع، ڈاکٹر شکراللہی، پروفیسر گریما شری واستوا اور شری رنجن مکھرجی۔

 


نئی دہلی: خسرو فاؤنڈیشن کے اشتراک و تعاون سے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر آف پرشین اینڈ سینٹرل ایشین اسٹڈیز نے امیر خسرو اور ہماری مشترکہ تہذیب پر ایک مجلس مذاکرہ کا انعقاد کیا جس کی صدارت خسرو فاؤنڈیشن کے چیئرمین اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ایمریٹس پدم شری پروفیسر اخترالواسع نے کی۔

انہوں نے سینٹر آف پرشین اینڈ سینٹرل ایشین اسٹڈیز کے ذمہ داروں بالخصوص پروفیسر مظہر آصف اور پروفیسر اخلاق احمد آہن کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اتنے بڑے پیمانے پر اس مجلس مذاکرہ کو خسرو فاؤنڈیشن کی تحریک پر منعقد کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں جو دوریاں بڑھ رہی ہیں، ہماری مشترکہ تہذیب کو جس طرح چیلنج کیا جا رہا ہے، اس کے پیش نظر ہی حضرت امیر خسرو کے نام پر خسرو فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ہندوستان جسے خدائے بزرگ و برتر نے خود حضرت آدمؑ کو جنت سے دنیا میں بھیجنے کے لیے منتخب کیا تھا اسے کسی قیمت پر جہنم نہیں بننے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ امیر خسرو ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ صوفی بھی تھے اور سپاہی بھی، وہ شاعر بھی تھے اور ماہر موسیقار بھی، وہ خانقاہ اور دربار دونوں سے کھلے عام وابستہ رہے، وہ ہندوستان جنت نشان کے پہلے قصیدہ خواں تھے اور آج جو تفریق اور تقسیم کی کوششیں ہو رہی ہیں ان میں امیر خسرو کا نام، کام اور کلام ہی ان کو ناکام بنا سکتا ہے۔

اپنے خیرمقدمی کلمات میں پروفیسر مظہر آصف نے انتہائی مرصع نثر میں جس میں ہندی کا رَس، فارسی کی شیرینی اور اردو کی لطافت گھلی ہوئی تھی، سب کا استقبال ہی نہیں کیا بلکہ مسحور کر دیا۔

ان کے بعد سینٹر کی ایک طالبہ چیتالی سنہا نے امیر خسرو کا ہندوی کلام اپنی خوب صورت آواز میں پیش کیا۔

اس مجلس مذاکرہ کا کلیدی خطبہ پروفیسر اخلاق احمد آہن نے دیتے ہوئے امیر خسرو کی شخصیت کے اوصاف، ان کے کلام کی معنویت اور ہندوستان سے محبت کا بھرپور تذکرہ کیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف ہندوستان میں ہی باہر سے لوگ نہیں آئے بلکہ ہندوستان سے بھی وسطی ایشیا، مغربی ایشیا اور دیگر علاقوں میں لوگ گئے۔

دہلی میں ایران کلچرل ہاؤس کے مرکز تحقیقات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شکراللہی نے امیر خسرو کی شاعری کو فارسی زبان کا ایک غیرمعمولی سرمایہ قرار دیا۔ انہوں نے ہندوستان کی عظمت کے جس طرح ترانے گائے، ان کا بھی تذکرہ کیا اور اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ ابھی تک امیر خسرو کی تمام شعری مجموعے شائع نہیں ہو سکے ہیں۔

awazurdu

خسرو فاونڈیشن کے ڈائریکٹر رنجن مکھرجی مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے 


اس موقعہ پر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، سینٹر آف انڈین لینگویجیز کے استاد اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سابق ڈائریکٹر نے کہا کہ امیر خسرو بلا شبہ ہماری مشترکہ تہذیب کی سب سے شاندار اور جاندار علامت ہیں اور آج جو تفرقہ بازی ہو رہی ہے اس میں امیرخسرو جیسے لوگوں سے ہی روشنی لے کر ہم ظلمت پسندی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

سینٹر آف انڈین لینگویجیز کے ہیڈ پروفیسر اوم پرکاش نے کہا کہ خسرو کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں اور وہ سب ہمارے لیے بڑی محبوبیت کے حامل ہیں۔

ہندی زبان کی توسیع اور ترقی میں ان کا غیرمعمولی رول ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پشتو کے وزیٹنگ پروفیسر ڈاکٹر انور خیری نے امیر خسرو کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں فارسی زبان و ادب کو جن لوگوں کے ذریعے متمول اور صاحب ثروت بنایا ہے ان میں امیر خسرو کا نام سرفہرست ہے۔

ہندوستانی زبانوں کے مرکز کی استاد پروفیسر گریما شری واستوا نے بھی اس موقعہ پر حضرت امیر خسرو کو اپنے انداز سے خراجِ عقیدت پیش کیا۔

اس موقعہ پر خسرو فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر شری رنجن مکھرجی نے نہ صرف خسرو کو خراجِ عقیدت پیش کیا بلکہ تمام مہمان مقررین اور شرکاء محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ خسرو فاؤنڈیشن اتحاد و اتفاق اور میل ملاپ کی فضا کو بنائے رکھنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس مجلس مذاکرہ کی نظامت ڈاکٹر علاء الدین شاہ نے کی اور ان کے ساتھ اس کے منتظمین میں ڈاکٹر شاہباز عامل بھی شریک تھے۔