راج: الہ آباد ہائی کورٹ نے بدھ کے روز کانگریس رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کی جانب سے دائر ایک عرضداشت پر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ گاندھی نے وارانسی کے خصوصی جج (ایم پی-ایم ایل اے) کے حکم کے خلاف ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
راہل گاندھی کی جانب سے دائر نظرثانی عرضداشت پر سماعت کے بعد جسٹس سمیر جین نے فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے کہا کہ جب تک فیصلہ سنایا نہیں جاتا، خصوصی جج ایم پی-ایم ایل اے کے حکم پر روک برقرار رہے گی۔ خصوصی جج (ایم پی-ایم ایل اے) نے راہل گاندھی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست والی ایک عرضداشت کو نئے سرے سے سماعت کے لیے اے سی جے ایم کی عدالت کے پاس بھیج دیا تھا، جس کے خلاف راہل گاندھی نے ہائی کورٹ کا رخ کیا۔
یہ معاملہ سکھ برادری کے تعلق سے 2024 میں امریکہ میں دیے گئے ایک بیان سے متعلق ہے۔ وارانسی کے ایک شہری ناگیشور مشرا نے ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ (ایم پی-ایم ایل اے) کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی۔ 28 نومبر 2024 کو اس پر سماعت کے بعد عدالت نے راہل گاندھی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ مذکورہ تقریر امریکہ میں دی گئی ہے، اس لیے یہ ان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔
عدالت کے فیصلے کو ناگیشور مشرا نے نظرثانی عدالت میں چیلنج کیا، جس نے ان کی عرضداشت قبول کرتے ہوئے اے سی جے ایم کو اس معاملے میں نئے سرے سے سماعت کرنے کی ہدایت دی۔ یہ معاملہ ستمبر 2024 کا ہے جب امریکہ میں ایک پروگرام کے دوران راہل گاندھی نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ "ہندوستان میں سکھوں کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔" ان کے اس بیان پر شدید احتجاج ہوا تھا اور اسے اشتعال انگیز اور انتشار پیدا کرنے والا قرار دیا گیا تھا۔
وارانسی کے رہائشی ناگیشور مشرا نے اس بیان کے خلاف وارانسی کے سارناتھ تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ اس کے بعد انہوں نے عدالت میں درخواست دائر کی تاکہ راہل گاندھی کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جا سکے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے 28 نومبر 2024 کو یہ کہتے ہوئے درخواست خارج کر دی کہ یہ معاملہ امریکہ میں دیے گئے خطاب سے متعلق ہے، جو ان کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔
اس کے بعد ناگیشور مشرا نے سیشن عدالت میں نظرثانی عرضداشت دائر کی، جسے عدالت نے 21 جولائی 2025 کو قبول کر لیا۔ راہل گاندھی نے اس فیصلے کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں نظرثانی عرضداشت دائر کی، جس میں دلیل دی گئی ہے کہ وارانسی کی عدالت کا فیصلہ غلط، غیر قانونی اور دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔